13

مولانا فضل الرحمن پاکستانی جمہوریت، سیاست اور ریاست کے لیے ناگزیر

مولانا فضل الرحمن جیسا زیرک سیاستدان پاکستان میں تو کہیں نظر نہیں آتا۔ دروغ برگردن راوی‘ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب جو آج کل پاکستان کے دورے پر موجود ہیں، سب سے پہلے علماء میں حضرت مولانا فضل الرحمن سے ہی بغل گیر ہوئے اور ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ بتایا کہ وہ مولانا سے بہت متاثر ہیں اور کہا ”میں بہت لوگوں سے مل چکا ہوں مگر مولانا فضل الرحمن کا کوئی ثانی نہیں

”۔ایک دندان ساز نے بورڈ لگایا تھا”دانت کوئی بھی توڑے‘لگا ہم دیں گے“۔نواز شریف کے ساتھ جیوڈشنری زیادتی ہو تو آواز مولانا کی سنائی دی، 2018 الیکشن میں دھاندلی ہو تو سب سے بلند آواز مولانا کی سنائی دی، اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی میں سب سے توانا آواز مولانا کی تھی‘ 2024 الیکشن میں فارم 45 اور 47 کا معاملہ مولانا نے ہی اٹھایا‘ختمِ نبوّت (صل اللہ علیہ وسلم) کا معاملہ ہو تو ملین مارچ مولانا ہی کرتے نظر آئے، فلسطین کا معاملہ ہو، مدارس کی بندش کی بات ہو، تبلیغ کے لوگوں کو کچھ دشواریاں ہوں،یا ممبران اسمبلی کے ساتھ کچھ ناجائز ہو تو مولانا ہی سینہ تان کر سامنے آتے ہیں۔ یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن پاکستانی جمہوریت، سیاست اور ریاست کے لیے ناگزیر ہیں۔

رہی بات باقی پارٹیوں کی تو وہ دانت انہی سے لگواتے ہیں۔ (قارئین سے معذرت)
حالیہ آئینی ترمیم کے لئیے جو دوڑیں پاکستان مسلم لیگ نون،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مولانا کے گھر کی لگائیں ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔تحریک انصاف کی قیادت نے کئی بار ان کی اقتداء میں باجماعت نماز بھی پڑھی ہے۔ ان دنوں طوافِ مولانا اس قدر ہوا کہ بعض مرتبہ ایک پارٹی ان سے مل رہی ہوتی اور دوسری انتظار گاہ میں اپنی باری کا انتظار کر رہی ہوتی۔وہ لوگ یا پارٹی سربراہان جو انہیں ڈیزل کے نام سے پکارتے تھے آج کل عقیدت سے حضرت مولانا فضل الرحمن کہتے نہیں تھکتے۔مدت سے ادبی صحافت کا طالب علم ہوں سیاست کے داؤ پیچ خوب سے سمجھتا ہوں

آج صرف مولانا کو موجودہ حکومت سے گلا یہ ہے کہ اسے پی ڈی ایم کا سربراہ رکھا ان کی وجہ سے مکس اچار اور مختلف القابات سے پکارا گیا اور سابقہ حکومت کو ناکو چنے چبوائے اور آج جب حکومت میں آئے ہیں تو اپنے سربراہ یعنی مولانا کو بھول گئے ہیں۔ آج مولانا احتجاجاً اپوزیشن میں بیٹھے ہیں۔ اپوزیشن ممبر کے دانت لگا رہے ہیں گو کہ یہ پیشہ سابقہ صدر عارف علوی کا تھا۔ آئینی ترمیم کے لیے موجودہ حکومت بہت مطمئن نظر آرہی تھی کہ یہ تمام کام مقتدرہ خود کرا لے گی۔ شاید مقتدرہ نے اپنے حصے کا کام کر بھی لیا ہو، مگر مولانا جس ہستی کا نام ہے اس کے پاس سے شیطان بھی نہیں گزرتا۔

تاہم یہ گتھی ابھی تک الجھی پڑی ہے۔ مولانا کو منانے کے لیے آصف زرداری‘ شہباز شریف، بلاول بھٹو اور دیگر رہنما گاہے بگاہے جاتے رہے، مگر مجال ہے کہ جوں تک رینگی ہو اور یوں پی ٹی آئی کو بالوں کے اشتہار میں لکھا جملہ کہہ دیا”ہم بال بال بچاتے ہیں“ گو مولانا نے پی ٹی آئی کو بال بال بچا لیا۔تمام پارٹی سربراہان مولانا کے پاس انہیں منانے گئے تو ان کا ایک ہی سوال تھا کہ مجھے آئینی ترمیم کا مسودہ دکھائیں۔ جو کہ کسی کے پاس نہ تھا۔

بالآخر مسودہ اسمبلی میں پیش ہونے سے ایک دن قبل مولانا کو دیا گیا اور اگلے دن اسمبلی میں پیش کیا گیا تو وہاں مولانا نے اپوزیشن کا ساتھ دیا اور کہا میں اپنی لیگل ٹیم سے مشورہ کروں گا پھر بتاؤں گا۔مسودہ پڑھنے کے بعد مولانا کا رد عمل یہ تھا کہ”بھاگو اس کے اندر تو ناگ ہے“(بھاگو کا لفظ احتیاطاً اضافی لکھ رہا ہوں)۔

مولانا بذاتِ خود درسی میدان میں علمی مسائل سے لے کر فقہی مسائل تک علم القران سے لے کر علم الحدیث تک بہت خوش اسلوبی سے نبرد آزما ہیں۔ انہیں استاد العلماء کہنا ناحق نہ ہوگا۔ سیاسی میدان میں بڑی بڑی جماعتوں کے لیے مرد آہن ثابت ہوئے ہیں۔کوئی کہتا ہے سیاست کا محور نواز شریف ہے، کوئی کہتا ہے اسٹیبلشمنٹ ہے، کوئی زرداری اور عمران خان کا راگ الاپتا ہے۔ جبکہ حقیقتاً ڈاکٹر ذاکر نائک کے الفاظ سچ نظر آرہے ہیں کہ”مولانا فضل الرحمن کا کوئی ثانی نہیں“،۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں