موسم میں شدت،لنڈا بازار کی رونقیں بحال 238

موسم میں شدت،لنڈا بازار کی رونقیں بحال

موسم نے لی انگڑائی اور سردیاں شروع ہوتے ہی متوسط اور غریب طبقے کے افرادنے گرم کپڑوں کی تلاش میں لنڈا بازاروں کا رخ کر لیا ہے ملک بھر کی طرح راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں لنڈا بازار کی رونقیں بحال ہوگئی ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد اپنے لیے گرم ملبوسات خرید رہی ہے لیکن اس سال لنڈا بازار جانے والوں کے ہوش اس وقت اڑنے لگ جاتے ہیں جب وہ انکی قیمتیں معلوم کرتے ہیں کیونکہ اب لنڈا بازار بھی ان کی دسترس سے باہر ہوچکا ہے رواں سال ان لنڈا بازاروں میں غریب اور متوسط طبقے کو مایوسی کا سامنا ہے استعمال شدہ پرانے درآمدی ملبوسات، کمبل، سویٹرز، جیکٹس کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں غریب دیہاڑی دار مزدوروں کے جسم کو ڈھانپنے کے لیے واحد جگہ لنڈا بازار ہوتا تھا کیونکہ یہاں سے انکو سستے داموں اچھے کپڑے مل جاتے تھے مگر اس دفعہ حد سے زیادہ مہنگائی نے انکے ہوش اڑا دیے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ یہاں خریداری کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس سخت سردی کے موسم میں گرم کپڑے ہر انسان کی ضرورت ہیں اب تو خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی لنڈا بازاروں سے خریداری شروع کر دی ہے جس کی وجہ سے گرم ملبوسات کی قیمتیں مزید دگنی ہوگئی ہیں اب اگر ہم ذکر کریں کہ آخر کیا وجہ کہ لنڈا بازار کو لنڈا بازار کیوں کہا جاتا ہے اور اس کی شروعات کب سے اور کیسے ہوئی تو معلوم ہوگا کہ لنڈا بازار کے بارے میں ایک کہانی مشہور ہے اب یہ کوئی من گھڑت ہے یا کہ حقیقت پر مبنی اس بارے میں بتانا تو مشکل ہے مگر کہانی مشہور ہے کہ برصغیر میں ایک خاتون جو کہ کسی انگریز افسر کی بیگم تھی وہ انتہائی رحم دل اور مہربان تھی اس نے دیکھا کہ لاہور کے اندر بہت غربت ہے اور لوگوں کے پاس پہننے کو کپڑے بھی نہیں تو اس نے اپنے جاننے والوں میں بات چلائی یا یوں کہہ لیں ایک مہم چلائی جس میں خود بھی کچھ پیسے جمع کئے اور اپنی استعمال شدہ کپڑوں کے ساتھ ساتھ اپنی سہیلیوں اور اپنے قریبی جاننے والوں سے بھی کپڑے لئے اور جو پیسے جمع ہوئے تھے اس کے بھی کچھ کپڑے لے کر لاہور میں ایک اسٹال لگا دیا آہستہ آہستہ لوگوں نے اس کے کام کو دیکھتے ہوئے اس کو فنڈنگ کرنے لگ پڑے ایسے اسکا یہ کام چل پڑا اور لوگوں کو سستے میں ملبوسات ملنے لگے لینڈا کے کام کو دیکھتے ہوئے اور بھی اسٹال لگنے لگے یہاں تک کہ یہاں یہ ایک سٹال پوری مارکیٹ میں بدل گیا شروع میں اس کا نام خاتون کے نام سےlindaلینڈا مارکیٹ تھا لیکن بعد میں لنڈا بن گیااستعمال شدہ اشیاء کے استعمال جن کی آمد برصغیر میں برطانیہ سے شروع ہوئی ہر برس برطانیہ کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ اپنے استعمال شدہ کپڑے خیرات میں دیتے ہیں اور ان میں اکثریت یہی سمجھتی کہ یہ کپڑے ان لوگوں کو دیے جائے گے جنکو انکی ضرورت ہے یا ان کپڑوں کو برطانیہ کے بازاروں میں خیراتی اداروں کی دوکانوں میں فروخت کر کے ان اداروں کے لیے رقم اکٹھی کی جائے گی لیکن ان پرانے کپڑوں کی ایک بہت بڑی تعداد دارصل سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کے کاروبار کا حصہ بن جاتی ہے اور خیرات میں دیئے گئے یہ کپڑے اربوں روپوں کی ایک ایسی تجارت میں استعمال کیے جاتے ہیں جسکا دائرہ کئی ممالک میں پھیلا ہوا ہے آج پاکستان سمیت بہت سے ممالک استعمال شدہ اشیاء کے کاروبار سے وابستہ ہیں پاکستان میں سب سے زیادہ لنڈا مال امریکہ اور برطانیہ سے درآمد ہوتا ہے جبکہ ہالینڈ، جرمنی، بلجیم، جاپان، کوریا، چین سے بھی پرانے ملبوسات کی درآمدات ہو رہی ہے جسکو کراچی پورٹ پر اس کو وصول کیا جاتا ہے اور پھر پورے ملک میں اس کی تقسیم کی جاتی ہے جبکہ کوالٹی کے حساب سے چیزوں کو الگ الگ کر کے انکی الگ الگ قیمت بھی لگائی جاتی ہے لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں درآمد ہونے والے لنڈے کے مال کا معیار اتنا اچھا نیں رہا کیونکہ امریکہ برطانیہ اور یورپی ممالک کے عوام میں بھی اب ہر سال کرسمس کے موقع پر پرانے ملبوسات چیریٹی میں دینے اور نئے ملبوسات کی خریداری کا رحجان کم ہوتا جارہا ہے اب وہ ملبوسات سال کے بجائے 3 سال تک استعمال کرتے ہیں پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں برانڈڈ پرانے ملبوسات اور جوتوں کی بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے غیر ملکی بیوپاریوں نے لنڈا مال کی کیٹیگریز بنالی ہیں اور درجہ اول مال کی من چاہی قیمتیں طلب کرنا شروع کر دی ہیں پاکستان میں لنڈا مال کی مجموعی درآمدات کا 50 فیصد مال افغانستان کی مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے درجہ اول کا حامل 30 فیصد لنڈے کا مال فنشڈ اور پروسیس ہوکر تھائی لینڈ اور جنوبی افریقہ کو دوبارہ ری ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے اس طرح سے مجموعی درآمدات کا بمشکل 20 فیصد مال مقامی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاتا ہے یہی وجہ کے مال تھوڑا اور مانگ زیادہ ہونے کے سبب لنڈا بازار میں مہنگائی ہوئی ہے اور قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں