
ْضرورتیں نہایت ہی سفاک ہوتی ہیں جو ایسا بے بس کردیتی ہیں کہ انسان وہ کچھ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جس کے بارے وہ عام حالات میں سوچ بھی نہیں سکتا۔اور فی زمانہ نت نئی ایجادات اور جدت نے ہماری ضرورتوں کو بھی بڑھوتری دی ہے آمدنی کم اور ضرورتیں لامحدود ہونے کے باعث ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہر جائز وجائزکام اب معاشرے کا دستور بن چکا ہے۔پیسے کی ہوس نے بحیثت قوم ہمیں اس مقام پرلاکھڑاکیا ہے جہاں سے تباہی کا آغاز ہوتا ہے زر کی بڑھتی ہوئی اس ہوس کے باعث ہمارے معاشرے میں ڈاکہ زنی اور چوری چکاری کے روایتی طریقوں سے ہٹ کر اغواء برائے تاوان‘جسم فروشی وجوئے کے اڈوں کی بھرمار‘بلیک میلنگ مختلف قسم کے فراڈ اب ایک عام سی بات ہیں۔سب زیادہ خطرناک منشیات فروشی کا بڑھتا ہوا کاروبار ہے۔جو ہماری نسل نو کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔منشیات فروشی کا کاروبار سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار تصور کیا جاتا ہے اور یہ کاروبار بڑے شہروں سے نکل کر اب دیہی علاقوں تک پھیل چکا ہے اور گھناونے کاروبار کا دائرہ بتدریج پھیلتا چلا جارہا ہے۔پاکستان بھرکی طرح بیول اور گرد ونواح کے علاقے بھی مبینہ طور پر منشیات فروشی کے کاروبار سے محفوظ نہیں رہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ اس وقت بیول اور آس پاس کے علاقوں میں منشیات فروشی کا کاروبار انڈسٹری کی صورت اختیار کرچکا ہے مبینہ طور پر شراب‘چرس‘افیون کے علاوہ آئس اور شیشہ کی باآسانی دستیابی کی اطلاعات ہیں۔جس کے باعث ہمارے نوجوان تیزی سے ان کا شکار ہورہے ہیں بتایا جاتا ہے اس کاروبار سے منسلک لوگ انتہائی بااثر ہیں۔جس کے باعث قانون بھی بے بس دیکھائی دیتا ہے۔ویسے بھی ہمارے یہاں قانون صرف کتابوں میں درج کرنے کی غرض سے ہی بنایا جاتا ہے اس پر عمل کی راہ میں روڑے وہی لوگ اٹکاتے ہیں جنہیں ہم قانون سازی کے لیے منتخب کرتے ہیں ان کی چوہدراہٹ کی خواہش اور معتبر نظر آنے کی روش ہی معاشرے کی تنزلی اور تباہی کا باعث بنتی ہے۔ہمارے سماجی نظام کے فرسودہ قوانین معاشرے میں بہتری لانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں انہیں رکاوٹوں نے ہم سے جینے کا حق چھین لیا ہے حیران کن امر ہے کہ بیول جیسے چھوٹے سے قصبے میں بھی منشیات جیسی وباء در آئی ہے خطہ پوٹھوار ہمیشہ سے امن وسکون کا گہوارہ رہا ہے یہاں برائیوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن غیر مقامی افراد کی تسلسل سے آمد کے بعد یہاں مختلف برائیوں نے جنم لیا ہے منشیات فروشی اور جسم فروشی دو برائیاں تیزی سے پنپ رہی ہیں یوں نہیں ہے کہ ہرغیر مقامی فرد برائی کا پیرو کار ہے ان میں اچھے اور بہتر کردار کے لوگ بھی موجود ہیں۔لیکن کچھ بدکردار لوگوں نے ہوس زر میں یہاں کے سکون کو برباد کردیا ہے۔آتشیں اسلحے کی بھرمار بھی ایک تحفہ ہے پیار ومحبت نچھارو کرنے والی دھرتی پر اب برداشت کا عنصر رفتہ رفتہ معدوم ہوتا دیکھائی دے رہا ہے دکھ اور افسوس ہے کہ دھرتی اپنی پہچان کھو رہی ہے۔درد وغم اور خون آشام چیرہ دستیوں نے ہمیں گھائل کردیا ہے انتظار اور اسرار کی جان کنی کے اس جان لیوا کھیل میں ہم اپنا سب کچھ داؤ پر لگا رہے ہیں منشیات فروشی اور بے راہ روی ہماری نئی نسل کو اندر سے کھوکھلا کررہی ہے اور ہم خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں یاد رکھیں دنیا میں ہر شے ایک قائدے قانون کے تابع ہے چاند تارے بھی ایک زبردست قائدے میں بندھے ہوئے ہیں جس کے خلاف وہ بال برابر بھی جنبش نہیں کرسکتے انسان بھی اُسی قانون قدرت کے تابع ہے مگر جب انسان اپنی عقل ودانش کو اطاعت و فرمانبرداری کے ڈگر سے ہٹاتا اور قانون قدرت کی بندشوں کو توڑتاہے تو پھر ہر شے کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحثیت قوم اپنی نسل نو کو بچانے کے لیے آواز اُٹھائیں ہراُس کام پر جس سے ہمارا معاشرہ متاثر ہوتا نظر آئے۔ہمیں منشیات فروشی‘جسم فروشی اور جوئے کے اڈوں کے خلاف باآواز بلند بولنا ہوگا۔