292

مقبولیت کی بلندیوں پر واثق قیوم عباسی

راولپنڈی کی سیاست میں بہت بڑے بڑے نام ماضی میں بڑی وزارتوں اور عہدوں پر رہے ہیں ابھی بھی بہت سی سیاسی شخصیات مختلف اہم وزارتوں پر موجود ہیں مگر ایسے میں ایک نوجوان کا سیاست میں آنا اور اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنی سیاسی ساکھ بنانا اور بڑے سیاسی پنڈت کو شکست سے دوچار کرنا یقینی طور پر بہت مشکل تھا مگر اس نوجوان نے ایسا کر کے دکھایا اور اسکے بعد وہ اپنی محنت سے ایک بڑے عہدے پر بھی منتخب ہوئے۔ سب سے کم عمر پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر واثق قیوم عباسی جنکا تعلق کہوٹہ سے ہے وہ قیوم عباسی کے گھر 24 جون 1987 کو پیدا ہوئے یہ دو بھائی اور ایک بہن ہیں واثق قیوم عباسی اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں انھوں نے آزاد کشمیر کے ایک بڑے تعلیمی ادارے پلندری کیڈٹ کالج آزاد کشمیر سے تعلیم حاصل کی جہاں انھوں نے ایف ایس سی مکمل کی اس کے بعد انھوں نے یونیورسٹی آف لاہور سے بی ایس سی انجینرنگ کی ڈگری حاصل کی انھوں نے باقاعدہ سیاست میں قدم 2011 میں رکھا جب وہ تحریک انصاف کے ساتھ بطور ایک ورکر وابسطہ ہوئے یہ وہ دور تھا جب تحریک انصاف دن بدن مقبولیت کی بلندیوں پر جارہی تھی انھوں نے بطور ورکر پارٹی میں اپنا کردار ادا کیا اور یہی وجہ کے پارٹی نے انکو 2013 کے عام انتخابات میں حلقہ پی پی 6 سے ٹکٹ دیا اس وقت اس حلقے سے انکا مقابلہ ایک سینئر سیاست دان چوہدری نثار علی خان کے ساتھ تھا ایک نوعمر نوجوان اور دوسری جانب ایک منجھا ہوا سیاستدان مگر اسکے باوجود انھوں نے چوہدری نثار علی خان کو ٹف ٹائم دیا اور محض دو ہزار سے زائد ووٹوں سے انکو شکست کا سامنا کرنا پڑا اسی حلقے میں چوہدری نثار علی خان کی نشست چھوڑنے کے سبب دوبارہ ضمنی انتخابات ہوئے تو پارٹی نے انکو دوبارہ پارٹی ٹکٹ دیا اس دفعہ انکا مقابلہ مسلم لیگ ن کے چوہدری سرفراز افضل کے ساتھ ہوا مگر اس دفعہ بھی وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوسکے مگر انھوں نے اپنی محنت اور پارٹی سے وابستگی قائم رکھی اس دوران وہ پارٹی میں مختلف عہدوں پر بھی رہے اور پارٹی کے لیے خدمات دیتے رہے یہی وجہ تھی کہ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے انکو تیسری دفعہ پارٹی ٹکٹ دیا انھوں نے حلقہ پی پی 12 سے الیکشن لڑا تو ایک دفعہ پھر انکا مقابلہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے فیصل قیوم ملک کے ساتھ تھا مگر ان انتخابات میں چوہدری نثار علی خان کو شکست سے دوچار کیا اور 27 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ چوہدری نثار علی خان گیارہ ہزار کے قریب ووٹ لے سکے جب انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی مرکز اور صوبے میں حکومت قائم ہوئی تو انکو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا جو کچھ عرصہ رہے اور اس کو بہتر کرنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کی اسکے بعد جب پنجاب میں مارچ اور اپریل میں اس وقت کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی اور بعد میں وزیراعلی کا انتخاب ہوا تو انھوں نے بطور ایم پی اے اہم کردار ادا کیا اور ہر جگہ فرنٹ پر کھڑے نظر آئے جہاں بہت سے ایم پی ایز نے اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کیں وہاں یہ ڈٹ کر عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے رہے یہی وجہ تھی کہ جب تحریک انصاف کے حق میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اور وزیراعلی پنجاب پرویز الٰہی منتخب ہوئے تو اس وقت ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جسکی کامیابی کے بعد جب ڈپٹی اسپیکر کے نام کا چناؤ ہوا تو پارٹی نے واثق قیوم عباسی کا نام ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے طور پر نامزد کیا جو بعد میں بلامقابلہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے کیونکہ انکے مدمقابل کسی نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے وہ پنجاب اسمبلی کے پندرھویں ڈپٹی اسپیکر ہیں مگر اسکے ساتھ ساتھ انکو پہلے کم عمر ترین ڈپٹی اسپیکر کا بھی اعزاز حاصل ہے واثق قیوم عباسی پارٹی کی سطح پر بھی کافی متحرک نظر آتے ہیں ماضی میں بھی یہ پارٹی کے بہت سے عہدوں پر کام کر چکے ہیں اور اب بھی یہ پاکستان تحریک انصاف ضلع راولپنڈی کے صدر ہیں جنھوں نے ضلع بھر میں پارٹی کی تنظیم سازی کی ہے واثق قیوم عباسی ایک محنتی نوجوان سیاست دان ہیں جنھوں نے گراونڈ لیول سے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور آج اس مقام تک پہنچے ہیں واثق قیوم عباسی کی روز مرہ کی روٹین ہے کہ وہ صبح جلدی اٹھتے ہیں اسکے بعد وہ اپنے گھر پر ملنے کے لیے آنے والوں کو ٹائم دیتے ہیں ان سے ملاقات کرتے ہیں جسکے بعد وہ اپنے حلقے میں نکل جاتے ہیں اور لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں یہ ہر ہفتے کو اپنے پبلک سیکریٹریٹ پر موجود ہوتے ہیں اور وہاں پر لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں واثق قیوم عباسی ایک ہنس مکھ شخصیت کے مالک ہیں ان سے انکے ووٹرز کی رسائی انتہائی آسان ہے وہ ہر ایک سے ملتے اور انکے مسائل سنتے ہیں یہی وجہ کہ وہ اپنے ووٹرز میں بہت مقبول ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں