را جہ شاہد رشید
پروفیسر ڈاکٹر ساجد الرحمن مدظلہ عہدِ موجود کے عظیم مفکر و مدبر ہیں جو اقوامِ عالم کیلئے مشاق و مشام ہیں اور اُمتِ مسلمہ کے درد اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہیں۔ موصوف حقیقی معنوں میں دینِ مبین کی عظمت و حُرمت‘ اسلام کی سربلندی یعنی غلبہ دین کیلئے کام کر رہے ہیں کیونکہ دینِ اسلام مغلوب نہیں غالب ہونے والا اور غالب رہنے والا دین ہے۔ آپ گلستان مصطفی کے مدنی پھولوں پودوں کی آبیاری فرما رہے ہیں۔ اللہ قادر و قدیر ہم سب کو حُبِ رسول ؐ خزانوں سے مالا مال فرمائیں:۔
دامن مصطفی سے جو لپٹا یگانہ ہو گیا
جس کے حضورؐ ہو گئے اُس کا زمانہ ہو گیا
حضرت ساجد الرحمن مدظلہ پیکر ِعجز و انکسار ہیں اور جذبہ حُبِ رسولؐ سے سر شار ہیں اور سرورِ دو جہاں‘ سید المرسلین خاتم النبین آنحضرت محمدؐ شاہِ مدینہ کی مدنی طریقت و سنت‘ قرآن ایسے برحق آئین و قوانین اور اللہ حاکمِ بر حق کی حاکمیت و حکمت کی بات بولنے والے ہیں‘ یعنی حق بات بولنے والے ہیں‘ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت کیلئے مر مٹنے والے ہیں:
۔
نماز اچھی‘ روزہ اچھا‘ حج اچھا‘ زکوٰۃ اچھی
مگر باوجود اس کے میں مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ کٹ مروں میں جب تک شاہِ بطحا کی حُرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
صاحبزادہ ساجد الرحمن ایک عالم بے بدل اور فاضل جلیل ہیں‘ فقہا کی شان ہیں اور محققِ ضوفشان ہیں۔ آپ 1951 ء کو بگھا ر شریف تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے‘ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول مٹور سے کیا اور ازاں بعد ساری تعلیم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے حاصل کی۔ اسی یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں ایم اے کیا اور 1991 ء میں PHD کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے 1975 ء میں ملازمت کا آغاز کیا اور 2011 ء میں بطور پروفیسر‘ وائس پریذیڈنٹ ملازمت سے سبکدوش ہوئے
۔ ڈی جی دعوۃ اکیڈمی رہے‘آپ ڈائریکٹر جنرل شریعہ اکیڈمی بھی رہے اور بحیثیت امام ایک خطیب کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی مسجد فیصل مسجد میں خطابت کے بھی فرائض سرانجام دئیے۔ آپ ادارہ تحقیقات اسلامی کے مجلہ ”فکرو نظر“ کے 32 سال تک مدیر رہے۔ جنھیں میں اکثر مسالموں‘ مذاکروں اور پی ٹی وی کے مشاعروں میں ”میرے ناظم و اعظم بابا جی“ بولا کرتا تھا‘ نعت و نظم و منقبت کے پردھان شاعر بشیر حسین ناظم‘سرکار ساجد الرحمن مدظلہ کے والدِ گرامی قبلہِ عالم بڑے پیر صاحب آف بگھار شریف اعلیٰ حضرت پیر محمد یعقوب نقشبندی مجددیؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:۔
وہ چشم جان و چشم سرکو تر رکھتے بحمد اللہ
نگارِ عشق و مستی کو بہ بر رکھتے بحمد اللہ
غریبوں‘ بے نواؤں کی خبر رکھتے بحمد اللہ
وہ احوال ِ دل و جان پر نظر رکھتے بحمد اللہ
نقیبِ دیدہِ بیدار یعقوب معظم تھے
میرے خیال میں ایک صدی سے بھی زائد زمانہ بیت گیا ہے کہ یہ بگھاروی خواجگان دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ تبلیغ ِ اسلام جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں اور خدمتِ خلق فرما رہے ہیں۔ محترم پیر صاحب آف بگھار شریف ڈاکٹر ساجد الرحمن جی کے پر دادا پر میں قربان جاؤں اس نقشبندی مجددی راہ کے راہی‘ بگھاروی رنگ و آہنگ کے موسس اول و اعلیٰ مولانا محمد ہاشم خواجہ جیؒ پر جو جنگل سے اپنے سر پر پتھر اُٹھا کر لائے اور اپنے گاؤں میں پہلی مسجد کی بنیاد رکھی۔ آپ کے جدِ امجد حضرت عبدالرحمن بھی زندگی بھر مساجد و مدارس سے ہی منسلک رہے‘دین کے کاموں کو دوبالا کیا بلکہ چار چاند لگا دئیے۔ میرے پاکستان کے باوقار‘ باکردار اور نیک نام عالمی شہرت یافتہ اسلامی و سیاسی لیڈر محترم راجہ محمد ظفر الحق پیر صاحب آف بگھار شریف داکٹر ساجد الرحمن مدظلہ کے برادرِ اکبر ہیں او سابق MPA راجہ محمد علی حضرت کے داماد ہیں جن کے بارے میں راقم نے لکھا تھا کہ پوری پنجاب اسمبلی میں راجہ محمد علی جیسا سادہ و شریف اور معزز و مہذب و معصوم ایم پی اے کوئی نہیں ہو گا۔ آ پ کے والد محترم حضرت خواجہ محمد یعقوب ؒ بھی اپنے بڑوں کے نقشِ قدم پر چلتے رہے اور ساری زندگی خدمت انسانی اور تبلیغ ِ دین کے کاموں میں مصروف ِ عمل رہے اور آج پروفیسر ڈاکٹر ساجد الرحمن مدظلہ ان سلسلوں کو بطریق احسن آگے بڑھا رہے ہیں اور اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ 2000 ء میں دارالعلوم یعقوبیہ کے نام سے ہائیر سیکنڈری سکول بگھار شریف کی بنیاد رکھی جس کا الحاق راولپنڈی بورڈ سے ہوا اور ڈاکٹر ایس ایم زمان کی سربراہی میں ماہرینِ تعلیم کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے ادارہ کیلئے مروجہ نصاب کے ساتھ جماعت و ار دینی نصاب بھی ترتیب دیا جس سے الحمد اللہ طلبہ مستفید ہو رہے ہیں۔ اس ادارے کے بچوں نے میٹرک اور ایف ایس سی میں اول اور دوم پوزیشنیں حاصل کی ہیں۔ 2017 ء میں اسی درجے کا ایک ادارہ طالبات کیلئے بھی قائم کیا۔ شعبہ تحفیظِ قرآن جو آباؤ اجداد کے زمانے سے کامیابی کے ساتھ چلا آ رہا ہے اس کے علاوہ حال ہی میں کہوٹہ میں ”کہوٹہ لاء کالج“ کے نام سے ایک معیاری ادارہ قائم کیا گیا ہے جس کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں صاحبزادہ ساجد الرحمن کی اس کاوش کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے کیونکہ اس طرح کے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اشخاص کے بس کی بات نہیں یہ کام حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن مدظلہ کی تقاریر سننے اور ان کی تصانیف پڑھنے سے ہر مسلم کے ایمان کو تازگی و حرارت ملتی ہے اور تقویت و ودیعت بھی۔ اسلامی معاشرہ کی تاسیس و تشکیل‘ سیرت رسول ؐ ‘ حضرت مولانا محمد یعقوب کی خدمات و حیات‘ کلمات ا ور خطبات آپ کی مستند اور معیاری کتب ہیں۔ ”خطبات“ سے یاد آیا کہ میری فکرِ مودودی سے آشنائی اُن کی کتاب ”خطبات“ پڑھ کر ہی ہوئی تھی پھر اس
کے بعد میں نے ان کے قرآنی تراجم و تفسیر کو پڑھا۔ حضرت مودودیؒ کی دیگر کتب جن میں ”دینیات“ خلافت و ملوکیت“ اور تنقیہات کے نام نمایاں ہیں ان کے مطالعہ سے کئی کھڑکیاں کھلتی ہیں اور روشنی ملتی ہے۔ صاحبزادہ ساجد الرحمن مدظلہ کا شمار نامور مشائخ‘ منفرد سجاد گان میں ہوتا ہے لیکن وہ اس ضمن میں اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ”میں اس حقیقت سے بھی غافل نہیں کہ تصوف کے نام پر کاروبار ہو رہا ہے‘ وہ لوگ جو شریعت و طریقت کے ابجد سے بھی واقف نہیں وہ خانقاہوں کی مسندوں پر براجمان ہیں۔ زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن ہیں۔
راجہ شاہد رشید
0333-8353365
0300-8333587