وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف جب تک وزیر اعلی پنجاب رہے کمال ایڈمنسٹریشن تھی جسکی نہ صرف دوسرے صوبوں میں بلکہ بیرون ممالک میں تعریف ہوتی دیکھی اور سنی گئی مگر جب سے وزیر اعظم پاکستان کا منصب سنبھالا یوں لگ رہا ہے جیسے ادارے کے بے لگام ہونے کی تاریخ رقم ہو گئی ساتھ ہی ساتھ ایسی پالیسیاں لائی جارہی ہیں جو ان کی مستقل کی سیاست کے لیے مو ت کا کنواں ثابت ہورہی ہیں جن میں حا ل ہی میں مفت آ ٹے کی فراہمی پر مسلم لیگ ن کے اہم رہنماؤں کو میاں شہباز شریف کے اس پروگرام پر گالیاں دیتے ہو ے سنا اور کہا گیا مفٹ آ ٹا ہمارے لیے سیاسی موت ثابت ہوا اور اس میں حقیقت بھی ہے جسے زمانے نے دیکھا اور تسلیم کیا کہ شہباز شریف نے مفت آ ٹا فراہمی کے لیے جو پالیسی دی وہ ایک بھونڈا مذاق تھا جس میں سب سے پہلے لوگوں کی تذلیل کی تاریخ رقم ہو ئی ، مفت آ ٹے کی فراہمی میں جو طریقہ کار لاؤنچ کیا گیا وہ ایک ناکام تجربہ تھا جو ڈیٹا حاصل کیا گیا اس کے نقائص جو پچھلے 14 سالوں میں آ نے والی کو ئی بھی حکومت دو ر نہ کر سکی جس میں ایک کروڑ پتی کو اس پروگرام میں اہل قرار دیا گیا اور ایک غریب مستحق شخص اس پروگرام کے اہل نہیں جو اسکے پالیسی سازوں پر کئی سوالات اٹھتے ہیں یہ کو ئی ایک مثال نہیں بلکہ ہزاروں ایسی مثالیں موجود ہیں نہ جانے یہ نقائص کیوں دور نہیں ہوتے حالانکہ اس سروے کے لیے اربوں روپے قومی خزانے کے بجٹ سے مختص ہوتےہیں اور جن مقاصد کے لیے یہ اربوں روپے خرچ بھی کر دیے جائیں وہ حاصل نہ ہوں تو کیا اس کے زمہ داران کیخلاف کیوں کو ئی سوموٹو نہیں لیا جا تا ؟کیوں نہیں ایسے زمہ داران کیخلاف کو ئیں کاروائی عمل میں لائی جاتی؟ کیوں اس پر قانون حرکت میں نہیں آ تا ؟ کیونکہ اس میں غریب نادار اور مستحقین کے ارمانوں اور انکے حقوق کا خون کیا گیا ہے ۔
مفت آ ٹے کی تقسیم کے دوران پورے ملک میں درجنوں ناخوشگوار واقعات پیش آ ے کئی جانیں ضائع ہوئیں کئی مقدمات درج کیے گئے جبکہ کو ٹلی ستیاں میں ایسے ہی واقعات جن میں آ ٹے کے حصول کے لیے آ نے والے غریب اور مستحق لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے سمیت مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو کہ افسوس امر ہیں انتظامیہ کی مس منجمنٹ کے کے باعث رونماء ہونے والے واقعات میں اگر انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرانے کے با وجود کوئی بھی کاروائی عمل میں نہ لا نا بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟ پہلی دفعہ یہ دیکھنے میں آ یا کہ حکومتی جماعت کے زمہ داران کی بھر پور چیخ و پکار اور شکایات کے با وجود کسی نے بھی انکی ایک نہ سنی اور وہ اب بھی اپنی اس ذلت و رسوائی پر۔ نادم نظر آ تے ہیں اور اپنی جماعت کے زمہ داران کے سامنے انکی بے بسی کے سوا کوئی چارہ نہیں
قارئین کرام !
اگر بینظیر انکم سپورٹ سروے کے مطابق ہی حکومت نے لوگوں تک مفت آ ٹے کی فراہمی ممکن بنانا تھی تو ایسے مستحقین کا ڈیٹا موجود بھی ہے تو انکے اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کر دیتے تو انتظامیہ اور ادارے رمضان المبارک کا پورا ایک ماہ مصروف عمل نہ ہوتے یا پھر آ ٹے کو ہی عام دکانوں یا یوٹیلیٹی سٹوروں پر سستا کر دیاجاتا تو لوگ ذلیل و خوار ہونے سے بچ کر آ ٹےکا حصول ممکن بناتے دوسری جانب عوام کی بھی متعدد کو تائیاں ہیں جن میں ایک تو وہ خواتین ہیں جو کہ حقیقی معنوں میں ضرورت مند ہوتی ہیں وہ آ ٹے کے حصول کے لیے جاتی رہیں
یہ انکی مجبوری تھی مگر دوسری جانب ایک وہ مرد حضرات بھی تھے جو صحیح سلامت زندہ لاشیں گھروں میں موجود ہونے کے باوجود بغیر کسی وجہ کہ اپنی عورتوں کو ایسے مقامات پر بھیج کر نہ صرف تذلیل کرواتے ہیں اور ڈسپلن نہ رکھنے پر بھی جھڑکیاں سہنے سمیت انہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور مستحق خواتین کے حقوق کے سامنے رکاوٹ بھی بنے رہے جبکہ مفت آ ٹا ٹریکنگ پوائنٹ پر جانے والے اکثر لوگوں نے یہ بھی شکایات کی ہیں کہ وہاں موجود سرکاری اداروں کے اہلکاروں نے من پسند افراد کو درجنوں آ ٹے کے تھیلے تقسیم کرتے رہے یہی وہ وجہ تھی جو کہ جھگڑے فساد ، مقدمات ، اور ہلز بازی کا سبب بنے حکومت وقت نے اپنی ان ناکام پالیسیوں میں موجود نقائص کو دور نہ کیا تو انکی سیاسی ساکھ مزید متاثر ہو نے کیساتھ ساتھ عوام سے ہمدردیاں حاصل کرنا انکے لیے ایک خواب بن کر ہی رہ جاے گا۔