88

معاشی استحکام کے لیے سخت فیصلے ضروری ہیں

سری لنکا کے بدترین معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک قدرے محتاط ہو گئے ہیں، اگر نہیں ہوا تو صرف پاکستان۔ دیگر تمام ممالک معاشی حالات کو بہتر کرنے کی سوچ رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں بھی سری لنکا کی طرح دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کی معیشت تقریبا ایک ہی جیسی ہے۔ یہ ممالک معاشی لحاظ سے کمزور ہیں اور تمام ممالک کے سرکاری خزانے بیرونی امداد اور قرضوں پر چلتے ہیں۔ مہنگائی تمام ممالک میں عوام کی برداشت سے زیادہ ہے۔ یہاں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہیں۔ یہ ذرخیز علاقہ ہے اور ذراعت کے لیے انتہائی موزوں ہے، جنوبی ایشیائی ممالک کی 60فیصد آبادی ذراعت سے وابستہ ہے اس کے باوجود یہ ممالک بمشکل اپنی اپنی آبادی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ اکثراوقات تو دیگر ممالک سے ذرعی اجناس بھی درآمد کرنی پڑ جاتی ہیں۔
سری لنکا کے حالات کو دیکھتے ہوئے دیگر ممالک نے تو کچھ اقدامات کیے ہیں مگر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے سیاستدان اپنی اپنی سیاست چمکانے سے ہی باز نہیں آرہے۔ انہیں ملکی مفادات سے زیادہ ذاتی اور پارٹی کے مفادات عزیز ہیں۔ حالانکہ پاکستان اور سری لنکا کے حالات میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، ماہرین پاکستان کو خطرناک اشارے دے چکے ہیں اور خبردار کر چکے ہیں کہ اگر کچھ وقت اور اسی طرح معیشت سے لاپرواہی برتی گئی تو پاکستان کے حالات بھی سری لنکا سے مختلف نہیں ہوں گے۔ اس سب کے باوجود حکومت اور سیاستدان ٹس سے مس نہیں ہو رہے، یہاں آپس کے جھگڑے بلکہ سیاسی دشمنیاں اور عداوتیں ہی ختم نہیں ہو رہیں۔ پھر ایک دوسرے کی دشمنی میں ملک و قوم کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اس کا بھی کسی کو ادراک نہیں ہے۔ ایک دوسرے کا تو کسی کو پاس ولحاظ نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ عوام کا وقت بھی برباد کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو ملک و قوم کی ترقی کے لیے کسی مفید کام میں استعمال کرنے کی بجائے اپنے سیاسی جلسوں اور جلسوں میں آئے روز لا رہے ہیں بلکہ کئی نوجوانوں کو تو مستقل طور پر سیاستدانوں کی رہائش گاہوں کے باہر رکھا ہوا ہے۔ یہ کون سی سیاست اور کون سی رہنمائی ہے؟
گزشتہ حکومت نے تو ملک کے ساتھ جو کیا سو کیا، انہوں نے بھی اپنی سیاست چمکانے کے لیے بہت سے جرائم کیے، آخر میں جو جرم انہوں نے کیا کہ پہلے معاشی حالات کی بہتری اور عوام کی قوت خرید کو بہتر بنانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا تو جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھیں تو انہوں نے تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے لیے عوام کو بلا جواز ریلیف فراہم کر دیا اور سرکاری خزانے سے سبسڈی دینی شروع کر دی۔ جب وہ حکومت چلی گئی تو موجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر چل نکلی اور عوام کو بے تحاشا سبسڈی دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ اب عوام کو سبسڈی دینا بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ عوام کو ریلیف نہ ملے تو وہ کچھ خریدنے کے قابل نہیں رہتے جس کی وجہ سے غربت میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے اور ملک میں سخت قسم کا انتشار پھیل جاتاہے لیکن سوال وہی ہے کہ پہلے آپ نے اپنے ادوار حکومت میں عوام کو اس قابل کیوں نہیں بنایا کہ ان کی قوت خرید اتنی ہو کہ اگر کبھی ایسے حالات پید اہو بھی جائیں تو وہ ریلیف کے بغیر بھی گزارا کر لیں۔
اب وفاقی حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو انہیں سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ تو ہم اس کے حق میں ہیں کہ وہ ضرور سخت فیصلے کریں، ہم سخت فیصلے کرنے پر ان کی بھر پور حمایت کریں گے مگر وہ فیصلے نہیں جن کے بارے میں حکمران سوچ رہے ہیں۔ وہ فیصلے کون سے ہیں جن کے بارے میں یہ سوچ رہے ہیں بلکہ کہہ بھی رہے ہیں؟ جیسے خواجہ آصف نے بھی بتایا کہ بڑی حد تک سبسڈی ختم کر دی جائے گی اور عوام کے لیے مشکلات ضرور ہوں گی لیکن ملکی مفاد کے لیے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ حکمران اپنے خرچے کم کر لیں اپنی تنخواہ تھوڑی تھوڑی گھٹا لیں، ملک پر ساٹھ ساٹھ وزراء مسلط کرنے کی بجائے پندرہ بیس وزراء سے کام چلا لیں۔ سرکاری افسران جو پچاس پچاس لاکھ روپے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ذرا انہیں ہاتھ کھینچنے کا کہیں۔ آئی ایم ایف کے بارے میں بھی چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ گردش کر رہی تھی جس میں لکھا تھا کہ ”حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ IMFنے کبھی بیوروکریسی، ارکان اسمبلی اور حکومتی عیاشیاں ختم کرنے کا مطالبہ آج تک نہیں کیا، بے ایمانوں کا سارا زور بجلی، گیس، پٹرول یعنی عوام کی کمر توڑنے پر ہی ہوتا ہے۔“
تو اگر سخت فیصلے کرنے ہیں تو اس طرح کے کریں۔ ایک شخص بیس ہزار روپے ماہانہ کماتا ہے وہ اپنی جیب سے مہنگا پٹرول بھی خریدے، بجلی کے مہنگے بل بھی بھرے، مکان کا کرایہ بھی ادا کرے، باقی بھی تمام اشیاء ضروریہ پر ٹیکس ادا کرے دوسری طرف ایک شخص بیس لاکھ روپے کماتا ہے، اسے الاؤنس بھی ملتے ہیں، اسے پٹرول بھی فری ملتا ہے، اسے رہائش کے لیے مفت عالی شان بنگلہ بھی میسر ہے، اور بھی کئی طرح کے ریلیف ملتے ہیں۔ ذرا سخت فیصلے کر کے اس کو بیلنس کریں، آپ کے سخت فیصلوں سے ہمیشہ غریب ہی کیوں متاثر ہوتے ہیں؟ امیروں پر یہ سخت فیصلے کیوں نافذ نہیں ہوتے۔ اس لیے سخت فیصلے ضرور کریں لیکن ملک کی سیاسی روایات سے ذرا ہٹ کر کیجیے۔ آپ کی سیاست بھی بچ جائے گی اور ملک بھی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں