columns 144

مسلم لیگ کی ضد

آج کل پاکستان میں سیاسی جماعتوں خاص کر مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کی آپس میں کشمکش اپنے عروج پر ہے ہر کوئی ملک کے سیاسی معاشی انتظامی حالات کی ابتری کا مورد الزام دوسرے کو ٹھرا رہا ہے اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہا ہے یا یوں کہہ لیں اپنے آپ کو اس ساری صورتحا ل سے ایسے نکال رہا ہے جیسے مکھن سے بال کو نکالتے ہیں عوام الناس کی ابتر اور مفلوک الحالی کی کسی کو پرواہ نہیں ہے کہ اس مہنگائی اور بے روزگاری میں جب کہیں بھی روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے یا کیے نہیں جا رہے بلکہ جو روزگار کے مواقع تھے وہ بھی اس مہنگائی میں آہستہ آہستہ کم ہو رہے ہیں جب ہر چیز کی قیمت دو گنا یا تین گنا ہو گئی ہے تو روزگار کہاں پیدا ہو گا اور کون اپنے کاروبار کو جاری و ساری رکھ سکتا ہے تو عوام الناس کیسے گزر بسر کر رہے ہیں کیا انہیں نظر نہیں آ رہا کہ دس کلو آٹے کے تھیلے کے لیے لوگ اپنی جان تک قربان کر رہے ہیں تو پھر اس غربت تنگ دستی اور مہنگائی کا عالم کیا ہو گا حکمرانوں کو تو صرف اور صرف اپنے اقتدار کی طوالت سے غرض ہے ان اقتدار کے لالچی حکمرانوں کی خود غرضی دیکھیں اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایک ہی دن میں سپریم کورٹ کے معزز ججوں کے اختیارات کو کم کر رہے ہیں ان کو پابند کر رہے ہیں کہ وہ ان حدود سے آگے نہ بڑھیں یعنی اشرافیہ کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرسکیں دنیا کے اندر سپریم کورٹ کے اختیارات ہمیشہ مقننہ سے زیادہ ہوتے ہیں ہمارے ہاں بھی ایسا ہی تھا لیکن اب ایسا نہیں رہے گا اس میں ہماری عدلیہ کا بھی بڑا قصور ہے کہ وہ بھی انصاف کے ترازو کے دونوں پلڑے برابر رکھنے میں ناکام ہوئے ہیں خاص کر غراباء کا تو اس ایوان میں بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے حکمران جماعت یہ پہلی بار ایسا نہیں کر رہی اس کی ساری تاریخ ہی ایسی ہے جس نے بھی اس کو غلط کام سے روکا یا ان کے غلط کام کی نشاندہی کی یا اس پر باز پرس کی یہ اس کے جانی دشمن بن گے چلیں آپ کو ذرا ماضی کی سیر کروا لیتے ہیں بات ہے ان سے 93 19 جب صدر اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کر دیا تو نواز شریف نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے اکثریت رائے سے بحال کر دیا اس تاریخی مقدمے کی سماعت کرنے والے فل بنچ کے ایک رکن کے طور پر جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ سے منتخب ہونے والے وزرائے اعظم صدارتی اختیارات(58 ٹو بی) کے تحت برطرف کر دئیے جائیں تو انہیں بحال نہیں کیا جاتا (ان کا اشارہ بینظیر بھٹو کی حکومت کی طرف تھا کہ 90 میں ان کی حکومت بحال نہیں کی گئی تھی) پنجاب سے تعلق رکھنے والا وزیراعظم بھی بحال نہیں ہونا چاہیے 1993 میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو انہوں نے جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا بینظیر بھٹو کی حکومت 1996 میں ختم ہو گئی اور نواز شریف دوبارہ دو تہائی اکثریت لے کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تو اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے انہوں نے ان کے کچھ کاموں کو خلاف ضابطہ اور ماورائے آئین قرار دے کر ان کو رد کر دیا ساتھ ہی ساتھ ایک مقدمہ میں نواز شریف کو سپریم کورٹ طلب کر لیا اور نواز شریف کو حاضر ہونا پڑا پھر یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ اگلی پیشی پر نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا جائے گا لیکن نواز شریف کی پیشی سے ایک دن قبل ہی مسلم لیگ کے جتھے نے سپریم کورٹ پر حملہ کردیا اور ججوں کو وہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچانی پڑی پھر آج کی طرح سپریم کورٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ایک چیف جسٹس کا حمایتی اور دوسرا مخالف یہ سارا معاملہ
1993 میں نواز شریف کی بطور وزیر اعظم بحالی اور اختلافی نوٹ سے شروع ہوا جو آہستہ آہستہ ایک دوسرے کو نہ ماننے کی ضد بن گیا اور آخر کار اس کا اختتام چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کی بغیر مراعات و پنشن کے برطرفی پر ہوا تمام مراعات و پنشن کو 2009 میں افتخار چودھری نے بحال کرنے کا حکم دیا یہ تو صرف ایک مثال میں نے پیش کی ہے ورنہ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اب آتے ہیں موجودہ حالات پر پی ٹی آئی کا بیانیہ یہ شروع دن سے کرپشن لوٹ مار کے خلاف رہا ہے ان کے بیانیے کو نواز شریف کی سزا نے بہت تقویت بخشی اور اسی بیانیے پر پی ٹی آئی کو 2018 کے الیکشن میں واضح کامیابی حاصل ہوئی اور مسلم لیگ کے گڑھ پنجاب کو بھی اس سے چھین لیا اب حالیہ دور میں عمران خان کا طوطی بول رہا ہے اگر ابھی صاف اور شفاف انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو عمران خان پنجاب اور کے پی کے میں بہت واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کر لے گا اس وقت عمران خان مسلم لیگ کی ضد بن چکا ہے پہلے تو انہوں نے توشہ خانہ کو بنیاد بنا کر خان کے خلاف پروپیگنڈا کرنا شروع کیا ان کو اندازہ تھا کہ شاید اس طرح پی ٹی آئی کا بیانیہ پٹ جائے لیکن سپریم کورٹ کے حکم پر توشہ خانہ کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس نے ان کو خود پیٹ دیا اب وہ اس کو روز نئے مقدمات میں گھسیٹ رہے ہیں اس طرح اس کو وہ راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں جس کے متعلق وزیر داخلہ صاحب بھی فرما چکے ہیں کہ اب ہم نہیں یا وہ نہیں ہم اسے کسی صورت نہیں چھوڑیں گے جب تک عمران خان کمزور نہیں ہو جاتا اس وقت تک یہی صورت حال رہے گی (ملک کی اب بھی ابتر حالت ہے کچھ خبریں ملک کے دیوالیہ ہونے کی بھی آ رہی ہیں اللہ رحم فرمائے)ان کی ہٹ دھرمی سے ملک کو مزید نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے وہ کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ عمران خان مسلم لیگ کی ضد بن چکا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں