مسلما نا ن فلسطین و کشمیر گذشتہ کئی عشروں سے یہو دی اور ہندو ریا ستی دہشتگردی کا شکا ر ہیں اعدادو شما ر سے اعیاں ہے کہ مسلمان تعداد اور اقتصادی وسائل کے اعتبا رسے بر تری رکھنے کے باوجو د مسلسل زیر عتا ب ہیں
اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم حکمرانو ں کی بے حسی اور عو ام کی جذباتی جبلیت ہے مسلم امہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں
مگر افسوس کہ مسلم حکمران قول و فعل کے مفا دات ذاتی تشہیر با ہمی چپقلشوں، عیش پر ستیوں کے علاوہ خبط عظمت کا بھی شکا ر ہو گئے اس تما م قبضہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج عرب و عجم کے حکمرانوں کا وہی حا ل ہے جو آخری مغل فرما نروا بہا در شا ہ ظفر کا تھا۔
ہا تھو ں میں سکت نہیں‘ قدمو ں میں جسارت جنبشں نہیں اور الفاظ میں تا ثیرنہیں مسلم حکمران اپنے آپ سے با ہر نکل سکے اور نہ ہی عوام کی فکری اور شعوری تربیت کر سکے
۔یہی فکری اور شعوری دیو الیہ پن آج ایک عا م مسلمان میں رائج ہو چکا۔یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر عام لوگو ں کا فلسطین کی تا زہ صورتحا ل پر احوال ملاخطہ کر لیجئے۔کو ئی صلاح الدین ایوبی کو پکا ر رہا ہے‘ کوئی مسلما نو ں کی عوا می صلا حیت پر ما تم بر پا کر رہا ہے‘ کو ئی ما ضی کے ترک حکمرانو ں کو یا د کر رہا ہے
اور کو ئی عظمت رفتہ کی مدھر دھنو ں پر محور قصاں ہے۔ عام مسلمانو ں اور حکمرانوں کے علاوہ علما ئے دین بھی مسلم امہ کی اس حالت زار کے ذمہ دار ہیں۔ آج کا عالم اپنی ترجیحات کا درست ادراک کرنے میں مکمل نا کام نظر آتا ہے
مختلف مکاتب فکر کے علماء عمومی طور پر فکری دیوالیہ پن کاشکا ر ہو چکے‘ ان کے مباحث محض چند موضوعات تک محدود ہو چکے ہیں۔
انداز تقلم انتہا ئی سخت اور اپنے مخالفین کے لئے گفتگو کا معیا ر انتہائی عا میانی ہو چکا حکمرانوں کی طرح مزاج میں ذاتی تشہیر اور خیطہ عظمت کا جذبہ بھی طیشت ازبا م ہو چکا اور یقیناً علماء کی قبیل ہیں
کئی ایسی شخصیات مو جود ہیں جو ان تمام علتوں سے مبرا ہیں لیکن اکثریت کی حالت نا گفتہ بہ ہے کسی بھی سانحے یا مسئلے سے نبردآزما ہو نے کے لئے ضروری ہے
کہ جذبات کا پیرہن اتا راجا ئے جذباتی عدم توازن غالب ہو تو انسا ن یا اقوام صورتحال کا نہ ہی درست تجزیہ کر سکتے ہیں اور نہ کسی بہتر منزل کی جا نب گامز ن ہو سکتے ہیں۔ اس کے لئے ایک مثال پیش کی جا تی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد معاشی اعتبا ر سے جاپا ن تقریباً مردہ ہو چکا تھا
جاپان کے دو اہم صنعتی شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے اس عظیم سانحے کے بعد جاپانی قوم میں بھی جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں ما ر رہا تھا اور پوری قوم امریکہ کے خلاف انتقام کی آگ بھڑکا چکی ہے
اس نازک مرحلے پر جاپان کی سیاسی قیادت کے درست فیصلوں نے ملک کی کایا پلٹ دی‘ شکست کو تسلیم کیا اور انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کیا اور اپنی تمام تر تو انائیاں تعلیم اور صنعتی شعبوں میں ترقی کے لئے صرف کر دیں بالآخر جا پان چند عشروں میں نہ صرف اپنے پروں پر کھڑا ہو ا بلکہ ترقی یا فتہ مما لک کی صنعتوں میں آن کھڑا ہو ا۔
تعصب کی عینک اتا ر دی جا ئے اور ٹھنڈے دل سے غور کیا جا ئے کہ مسلم امہ نے گذشتہ ایک صدی کے دوران کیا کیا؟کبھی ایک سیاسی تحریک چلا ئی تو کبھی دوسری کو ئی تحریک کامیا ب ہو ئی
تو کوئی نا کا م ہر تحریک میں عام مسلمانوں کا خون بے دریغ و تا ریخ ان تحریکو ں نے اپنے بعض مقاصد کو ضرور حاصل کیا لیکن مجمو عی طو ر پر دیکھا جا ئے گمان گزرتا ہے
کہ مسلما ن اوج ثریا پر جانے کے بجا ئے پستیوں کی جا نب رواں دواں رہے اس امرکی وجوہات یہ ہیں کہ نہ کسی سیا سی حکمران نے عوام کی اخلا قی تربیت اور نہ کسی حاکم نے اپنی ترجیحات کو درست کیا
بلکہ حکمرانوں نے ازخود تمام سیا سی سما جی‘ اخلا قی معا شی اور مذہبی روایا ت کی دھجیا ں اڑا دیں اور ان ہی عوامل کی بنیا د پر ایک کھوکھلا اور ہر قسم کی اخلا قیا ت سے عاری معا شرہ وجود میں آیا
تاریخ کے اوراق سے معلو م ہو تا ہے کہ مسلما ن دنیا اندرونی خلفشا ر اور لڑا ئیوں کا شکا ر ہو گئی۔ اسی اثنا ء میں ایک صدی سے زائد عرصہ گزرگیا تما م تر توانائی لڑائی میں لگ گئی ان ہی حما قتو ں کے با عث پہلے برطا نیہ نے جبر وستم کی داستان رقم کی پھرروس نے اور اب امریکہ بہادر ہم پر مسلط ہے۔
امریکہ کے بعد اگلا نمبر چین کا ہے۔ قرائن اسی جا نب گا مزن ہیں مسلما ن دنیا میں جب جب ظلم و جبر کا بازار گرم ہو ا تو حکمران طبقے نے ان ہی اقوام کو مدد کی‘صدا دی جو ظالموں کی پشت پناہی کو اپنا شعار بنا ئے ہو ئے ہیں
سیاسی لیڈروں اور اقتد ار کے دیوانوں نے تقاریر سے اپنا اپنا کا م چلایا اور یو ں سب نے اپنے تئیں مظلوم کے ساتھ ہمدردی کا حق ادا کر دیا مگر اب ایسا نہیں چلے گا
جو کام ہم نے کئے سب کے سب سطحی نوعیت کے ہیں حقیقت سے ان کا کو ئی لینا دینا نہیں۔ کسی کی مدد کرنے کے لئے انسان کا اپنا مضبوط ہونا ضروری ہے
بصورت دیگر مدد محض الفاظ کے سوا کچھ نہیں ہو گی اسی قسم کی مدد فلسطین و کشمیر کے مظلوم عوام آج مسلما نو ں سے پا رہے ہیں اپنے کردار کی بہتری اور محنت سے اللہ تعالیٰ کی نصرت کو صدا دیں اور پھر دیکھیں کہ دعا ئیں قبو ل ہو تی ہیں یا نہیں۔
اللہ تعالیٰ ایک ایک فیصلے کو یاد رکھیں کہ اللہ رب العزت کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خودنہ بد لیں۔پہلے بدلنے کا فیصلہ کیجئے کہ کیا ایسے ہی وقت گزارتا ہے
یا اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنا ہے اگر ماضی جیسا عرو ج حاصل کرنا ہے تو انسا ن سازی پر تو جہ دینا ہو گی آج کے مسلما ن کوجدید عصری تقا ضوں کے مطا بق ہم آہنگ کرنا ہو گا سیاسی رہنما ؤں کو اپنی شخصیت پرستی کے خول کو توڑ کر اقوا م کو اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر استوار کرنا ہو گا۔
جدید علوم میں مہارت پیدا کرنی ہو گی‘دینی تعلیم کا علم پیشہ ور ملا ؤں سے چھین کر ریاست کو خود تھامنا ہو گا‘مذہبی مشرقی شدت پسندی کی لعنت کا تدارک کرنا ہو گا‘سب سے بڑھ کر اہم یہ کہ جذبا تی جبیت کا خا تمہ کرنا ہو گا۔
معا شرے میں عدم برداشت کو ختم کرنا پڑے گا تعلیمی میدان میں ترقی اقتصادی ترقی کی ضمانت ہے۔ اقتصا دی ترقی مضبوط دفا ع کی ضمانت ہے
اور مضبو ط اقتصادی و دفاعی قوت ہی آج ہر قسم کے اندرونی و بیرونی خطرات کا جانفشانی سے مقا بلہ کر سکتی ہے۔ حاصل کلا م یہ ہے کہ مسلم امہ اپنی موجودہ حالت پر ما تم کرنے کے بجائے اپنی ساری تو انائی تعلیم اور اقتصا دی ترقی پر صرف کر ے۔
بتدریج تما م شعبہ ہا ئے زندگی میں ترقی کو اپنا ہدف بنائے یہ سفر کٹھن بھی ہے اور طویل بھی لیکن مسئلے کا دیرپا حل یہی ہے یا د رکھنے کی با ت یہ ہے
کہ ما ضی کی حیثیت محض ایک قبرستا ن کی ہے اور یقیناً ہما رے قبرستانوں میں کئی نا در اور قیمتی لو گ بھی مدفون ہیں اور کئی قیمتی روایا ت بھی وہ لوگ تو واپس آنے والے نہیں ہیں اُنہیں صدا د ینا محض سعی لاحاصل ہے
البتہ چند روایا ت کو زندہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ علم کی کھو ئی ہو ئی روایت کو آج بھی زندہ کیا جا سکتا ہے بہرکیف اپنے اسلا ف کی درخشا ں داستان شجاعت کو ضرور یا د کیجئے مگر ما ضی میں جینا چھو ڑ دیجئے۔