107

مسلمانوں کا یہ حال کیوں؟

آ ج دنیامیں اسلامی ممالک کی تعداد ستاون ہے مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب تک پہنچ چکی ہے بہت سے مسلمان ممالک ایسے ہیں جن کے پاس مال وزرکی کمی نہیں قدرت نے ہر طرح کی نعمت انھیں عطا کر رکھی ہے لیکن پوری دنیا میں مسلمان ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ایسا کیوں ہے آپ جتنا غور وفکر کریں گے تو دوہی وجوہات سامنے آئیں گی ایک دین اسلام سے دوری اور دوسرا سائنسی علوم سے۔کوئی ایک بھی مسلمان ملک ایسا نہیں جہاں اسلام کا منصفانہ اور عادلانہ نظام قائم ہو جہاں اسلام کی حکمرانی ہو اور اسلامی نظام حیات کے مطابق لوگ اپنی زندگیاں گزار تے ہوں پوری امت مسلمہ نیشنل ازم کی بنیاد پر تقسیم ہے اور اسلام کا وا حدت اور خوت کا درس ”وا عتصمو بحبل اللہ جمیعا والا تفرقو“فراموش کر بیٹھے اور نبی مکرم کا وہ فرمان کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی ایک عضو میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم اس درد سے بیقرار ہو جاتا ہے اور ایثار و قربانی کا جذبہ جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں پایا جاتا تھا وہ مفقود ہے قدرت کا یہ قانون ہے

کہ کسی قوم کونعمت دے کر اس وقت تک اس نعمت کو عذاب سے تبدیل نہیں کیا جاتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو اس نعمت کا نا اہل ثابت نہیں کرتی گزری ہوئی اورموجو د ہ قوموں کے عروج وزوال کے لئے یہی اٹل قانون ہے کہ نعمت کا شکر اور حق ادا کرنے پر نعمت بڑھ جاتی ہے اور نا شکری کرنے پر سزا دی جاتی ہے یاد رہے کہ قدرت کا یہ قانون صرف کا فر قوموں کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ مسلمان بھی اگر اسی روش پر چلیں تو اللہ تعالیٰ ان سے بھی اپنی نعمت واپس لے لیتا ہے اور انھیں بھی رسوائی اور ذلت کا
سامنا کرنا پڑھتا ہے مسلمانوں کے عروج وزوال کا مطالعہ کرنے والے ان عوامل سے بخوبی واقف ہیں کہ جب تک مسلمان اللہ کی دی ہوئی نعمت دین اسلام کو اپنے سینے سے لگائے رہے اسے ضابطہ حیات مان کر اس پر عمل بیرا ہے عروج کی منازل پر فائز رہے کہ دنیا ئے کفر مسلمانوں کا نام سن کر لرز جاتے رہے جب سے مسلما نوں نے اس نعمت کی ناقدری کی اور حق کی ادائیگی سے منہ موڑا تب سے ان کی طاقت کا فروں پر تسلط ختم ہونا شروع ہو گیا اور آج دنیا میں کو ئی بھی ایسا مسلم ملک نہیں جو کا فروں کے دست نگرنہ ہو۔

اور دوسری سب سے بڑی حقیقت کہ جب تک مسلمانوں کا علم مضبوط رہا سائنسی علوم بلحصوص اور عرابی علوم جب ان میں مسلمان پیچھے رہے اور جدید سائنسی ایجادات کے حوالے سے اہل مغرب کے آگے سر بسجود ہوئے کیا دین اسلام نے ان کو سائنسی علوم حاصل کرنے کی تر غیب نہیں د ی قرآن باربار کہتا ہے (افلایتد برون)،،(افلا یتفکرون) کیا یہ تدبر نہیں کرتے کیا یہ سوچتے نہیں کسی زمانے میں اسلامی حکومتوں کے زیر سایہ نئی ایجادات ہوئیں اور بڑے سائنس دان ڈاکٹر اور حکما پیدا ہوئے بو علی ابن سینا ابن الہیثم اور ابن رشد جا بربن حیان جیسے کیمیا دان ذکر یا رازی اور ابوالقاسم زہراوی جیسے علم و ہنر کے فلک پر چھائے ہوئے مسلمان سائس دان پیدا ہوئے جنھوں نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی اور ان کی ایجادات واختر اعات اور تحقیقی کتب سے استفادہ کر کے مغربی اہل علم نے سائنس اور طب کو حدید رنگ و آہنگ عطا کیا عالمی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو محصوس ہو گا کہ دنیا میں وہی قوم برتر رہتی ہے جو سائنسی علوم میں آگے ہو تی ہے یونان کسی زمانے میں سائنس میں بہت آگے تھا تب اس نے سکندر اعظم کو پیدا کیا تھا جن کا شہرہ ساری دنیا میں پھیلا ہوا تھا یہاں اسقلی بیوس،بقراط اور ارسطو پیدا ہوئے علم و ہنر کے اس خزینہ سے روم نے فائدہ اٹھایا تو اس کے ہاں جالینوس،ہیرو نیلوس اور ایراسطر طوس جیسے نامور حکماء پیدا ہوئے۔

قدیم عہد کے مسلم حکمرانوں نے بھی سائنس و طب کی سرپرستی کی ساری دنیا سے ماہرین کو اپنے پاس بلایا اور انھیں بڑی بڑی رقموں کے ساتھ عزت و وقار سے نواز،عباسی عہد میں تو بغداد علم و فن کا مرکز بن چکا تھا اور عرب ہی نہیں ہندوستان تک سے ماہرین کو یہاں لایا جاتا تھا جو ریسرچ کے نئے نئے کام انجام دینے کے ساتھ ساتھ سائنس و طب کی کتابیں دوسری زبانوں سے ترجمہ کیا کرتے تھے میڈیکل کالج اور ہسپتال اسی دور میں قائم ہونے لگے تھے اور دار الترجمہ میں علمی کتابوں کے ترجمے بھی ہوتے تھے جس طرح آج طلباء اولیٰ تعلیم کے امریکہ اور یورپ جاتے ہیں

اسی طرح اس دور میں طلباء ساری دنیا سے بغداد آیا کرتے تھے یہ دور مسلمانوں کا سنہری دور تھا تاریخ عالم آج تک ایسے سنہری دور پر نازاں ہے۔
نہ اٹھا پھر کوئی روحی نجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گِل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
نہیں نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
پھر مسلمان عیش و عشرت کی طرف بڑے سائنسی علوم کے بجائے فن تعمیرات کے دلدادہ ہوئے جب مغرب ایٹم بم بنا رہا تھا تب یہ شاہی قلعے تعمیرکر رہے تھے تو وہی ہوا جو ہونا تھا اہل عرب گاڑیوں،عورتوں اور عمارتوں کے دلدادہ ہوئے تو مٹھی بھر یہودیوں کو نہ سنبھال سکے آج اسرائیل عرب کے سینے دندناتا پھررہا ہے اگر مسلمانوں کے پاس دولت خرچ کرنے کا ڈھنگ ہو تا تو عرب کے ہر ملک کے پاس ایٹم بم ہو تا۔راکٹ ہوتے میزائل ہوتے تو اسرائیل کیسے مسلمانوں کی ناک میں دم کر کے بیٹھتا کس طرح مسجد اقصیٰ کو قبضے میں رکھتا اور فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلتا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں