مری چند ماہ قبل واپڈا کے ملازم اور یونین کے چیئرمین فدا عباسی کے اچانک ہی لاپتہ رہنے کے بعد اس کی نعش کے ملنے کا معمہ تاحال حل نہ ہوسکا۔ موبائل فون پر ہونے والی بات چیت کے بعد دو ملزمان کو پولیس نے حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی جبکہ لواحقین کی طرف سے آغاز میں واپڈا کے ایک افسر سمیت ملازمین پر شک ظاہر کیا گیا جن کا مبینہ طور پر بعد میں لواحقین کے ساتھ صلح کا انکشاف ہوا۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو سال میں یونین کونسل گھوڑا گلی کے علاقے میں 4 کے قریب لاشیں برآمد ہوئیں لیکن مری پولیس ابھی تک کسی بھی قاتل کو بھی گرفتار کرنہیں کر سکی جو لمحہ فکریہ ہے۔واپڈا مری کے ملازم فدا عباسی جو چند ماہ قبل لاپتہ ہوگئے تھے مسخ شدہ لاشیں چٹا موڑ کے جنگل سے برآمد ہوئی تھی۔ ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا تھا کہ مذکورہ شخص کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاش برآمد ہونے کے بعد لواحقین نے احتجاج کیا اور الزام لگایا تھاکہ واپڈا کے افسر اور اس کے ساتھیوں نے مبینہ طور پر اس کو قتل کیا۔اس میں ملوث افراد کو لواحقین کو مطمئن کرنے کے لیے تفتیش کے لئے بلایا اور دوستانہ ماحول میں ان کو کلیئر قرار دے دیا،جنہوں نے بعد میں مبینہ طور پر لواحقین کے ساتھ راضی نامہ کر لیا اور ایک بار پھر جب مری کے مقامی پولیس افسران تبدیل ہوگئے تو ٹیلی فون پر بات چیت کے شک میں دو ملزمان جن میں ناصر عباسی اور محمد آصف کو گزشتہ چار دن سے گرفتار کر کے حسب بے جا میں رکھنے پر جمعرات کے روز مقامی عدالت سے ان کے چار دن کا ریمانڈ لیا لیکن پولیس زرائع کا کہنا ہے کہ ان ملزمان کا اس قتل کا کوئی ٹھوس شواہد د موصول نہیں ہوئے ہیں۔لواحقین نے الزام لگایا تھا کہ پولیس اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات سے بری الذمہ ہونے کے بعد تفتیش کا رخ موڑ لیاہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو تین سال میں یونین کونسل گھوڑا گلی سے 4 افراد کی نعشیں ملی ہیں جن میں سے کسی ایک کیس کا بھی سراغ نہیں لگایا جا سکا اور نہ ہی ملزمان کوگرفتار کیا جا سکا جو لمحہ فکریہ ہے۔ عوامی حلقوں نے اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ چیئر مین فدا سمیت دیگر مقتولین کے قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے انہیں کیفر کرادر تک پہنچایا جائے۔
141