120

مرکز قومی بچت کلرسیداں

تحریر چوھدری محمد اشفاق
مراکز قومی بچت میں کھاتہ داروں کی زیادہ تر تعداد بوڑھے افراد کی ہوتی ہے جو سرکاری نوکری میں اپنی عمر پوری کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے کر اپنی عمر بھر کی جمع پونجی قومی بچت میں جمع کروا دیتے ہیں تا کہ گھر کا چولہا جلتا رہے اس کے علاوہ بہت سے افراد اپنے پیسے ڈاکخانوں میں بھی جمع کروا دیتے تھے وہاں سے بھی ان کو معقول ماہانہ منافع مل جاتا تھا لیکن اب حکومت نے داکخانوں میں سے پیسے جمع کروانے والا نظام ہی بلکل ختم کر دیا ہے مرکز قومی بچت کلرسیداں جو کہ تحصیل بھر کے اکاؤنٹ ہولڈرز کو بڑے اچھے طریقے سے ہینڈل کر لیتا تھا اور صارفین کی تعداد مناسب ہونے کی وجہ سے ان کو بیٹھنے کیلیئے بہترین جہگہ بھی مل جایا کرتی تھی اور وہ وقت پر اپنے کام سمیٹ کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ جایا کرتے تھے لیکن اب ڈاک خانوں سے پیسے کا لین دین ختم ہونے کے بعد روات گوجر خان اور کشمیر تک کے داکخانوں کے تمام اکائنٹ ہولڈرز کو مرکز قومی بچت کلرسیداں میں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے اس سنٹر میں عملہ بھی وہی جہگہ بھی وہی لیکن اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد میں ہزاروں کے حساب سے اضافہ کر دیا گیا ہے جس وجہ سے اب یہ سنٹر بزرگ شہریوں کیلیئے وبال جان بن گیا ہے ضعیف العمر افراد صبح 8بجے وہاں پہنچتے ہیں اور شام کو اپنے کام سے فارغ ہوتے ہیں حتی کے جو افراد آخری نمبرز میں ہوتے ہیں ان کو رات بھی ادھر ہی ہو جاتی ہے جبکہ سنٹر میں کام کرنے والے عملہ کو رات کے 9بجے تک بھی کام کرنا پڑ رہا ہے یہ سنٹر اکاؤنٹ ہولڈرز کے ساتھ ساتھ عملہ کیلیئے بھی مصیبت بن چکا ہے ہمت ہے اس سٹاف کی جو صبح 9بجے سے رات 9بجے تک لگاتار اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں سنٹر کے اندر صرف 50افراد کے بیٹھنے کیلیئے انتظام موجود ہے جبکہ کل صارفین کی تعداد کم و بیش پانچ سو کے لگ بھگ ہوتی ہے وہ بیچارے سارا دن دھکے کھاتے اور دیتے ہیں اوپر سے اس سنٹر کی وجہ سے شہر میں ٹریفک مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے جو اکاؤنٹ ہولڈرز روات، گوجر خان، اور کشمیر کے دور دراز علاقوں سے آ تے ہین ان کے پاس تو گاڑیاں ہوتی ہیں اور وہ اپنی گاڑیاں سنٹر کے آس پاس روڈ پر کھڑی کر دیتے ہیں جس وجہ سے روڈ کے دونوں اطراف گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں اور شہر سے گزرنے والی ٹریفک کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ سنٹر سارفین عملہ اور پورے کلرسیداں کے عوام کیلیئے وبال بن چکا ہے ٹریفک وارڈن اس سنٹر کے آگے پیچھے پھنس کر رہ گے ہیں سڑک کے دونوں اطراف گاڑیاں کھڑی ہونے کی وجہ سے روڈ بلکل سکڑ کر رہ گئی ہے اور ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے بوڑھے بزرگ جو اس سنٹر کو اپنے لیئے سہولت سنٹر قرار دے رہے تھے اب وہ رو رہے ہیں کہ ہم کہاں پھنس گے ہیں اس مصیبت میں نہ صرف اکاؤنٹ ہولڈرز بلکہ ضعیف العمر بزرگوں کے ساتھ آنے والے ان کے قریبی بھی اس مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں یہ مسئلہ گھمبیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے گزشتہ منگل کو ایک کام کے سلسلہ میں مذکورہ سنٹر میں جانے کا اتفاق ہوا صبح 8بجے وہاں پہنچا اور جب شام 4 بجے نمبر آیا تووہاں پر موجود کیشئر نے جوا دیا کہ اب 4بج چکے ہیں اب ہم رقم وصول نہیں کریں گے کل آ جانا بلکل اسی طرح کے مسائل سے تمام صارفین دوچار ہو رہے ہیں اس سنٹر میں جانا اور اپنا کام مکمل کروا کر واپس آ جانا بہت جان جوکھوں کا کام بن چکا ہے اتنے بڑے علاقوں کا بوجھ صرف ایک محدود سنٹر پر ڈال دینا بھی بہت بڑی زیادتی کی بات ہے محکمہ پوسٹ اورقومی بچے کے اعلی حکام کو آپس میں مل بیٹھنا چاہیئے کہ اس معاملے کا کا کس طرح سے حل نکالنا ہے فی الحال ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر، روات میں بھی قومی بچت مراکز بنائے جائیں اور کلرسیداں سنٹر کو کسی بڑی کھلی بلڈنگ میں منتقل کیا جائے اور اس میں کام کرنے والے سٹاف کی تعداد بھی دگنی کی جائے سنترز کی تعداد بھی بڑھائی جائے یا ڈاکخانے پھر سے یہ کام سنبھال لیں اگر صورتحال بلکل اسی طرح رہی تو صارفین کے ساتھ ساتھ سنٹر میں کام کرنے والا سٹاف بھی زہنی مفلوج ہو جائے گا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں