تحریر چوھدری محمد اشفاق
مراکز قومی بچت میں کھاتہ داروں کی زیادہ تر تعداد بوڑھے افراد کی ہوتی ہے جو سرکاری نوکری میں اپنی عمر پوری کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے کر اپنی عمر بھر کی جمع پونجی قومی بچت میں جمع کروا دیتے ہیں تا کہ گھر کا چولہا جلتا رہے اس کے علاوہ بہت سے افراد اپنے پیسے ڈاکخانوں میں بھی جمع کروا دیتے تھے وہاں سے بھی ان کو معقول ماہانہ منافع مل جاتا تھا لیکن اب حکومت نے داکخانوں میں سے پیسے جمع کروانے والا نظام ہی بلکل ختم کر دیا ہے مرکز قومی بچت کلرسیداں جو کہ تحصیل بھر کے اکاؤنٹ ہولڈرز کو بڑے اچھے طریقے سے ہینڈل کر لیتا تھا اور صارفین کی تعداد مناسب ہونے کی وجہ سے ان کو بیٹھنے کیلیئے بہترین جہگہ بھی مل جایا کرتی تھی اور وہ وقت پر اپنے کام سمیٹ کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ جایا کرتے تھے لیکن اب ڈاک خانوں سے پیسے کا لین دین ختم ہونے کے بعد روات گوجر خان اور کشمیر تک کے داکخانوں کے تمام اکائنٹ ہولڈرز کو مرکز قومی بچت کلرسیداں میں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے اس سنٹر میں عملہ بھی وہی جہگہ بھی وہی لیکن اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد میں ہزاروں کے حساب سے اضافہ کر دیا گیا ہے جس وجہ سے اب یہ سنٹر بزرگ شہریوں کیلیئے وبال جان بن گیا ہے ضعیف العمر افراد صبح 8بجے وہاں پہنچتے ہیں اور شام کو اپنے کام سے فارغ ہوتے ہیں حتی کے جو افراد آخری نمبرز میں ہوتے ہیں ان کو رات بھی ادھر ہی ہو جاتی ہے جبکہ سنٹر میں کام کرنے والے عملہ کو رات کے 9بجے تک بھی کام کرنا پڑ رہا ہے یہ سنٹر اکاؤنٹ ہولڈرز کے ساتھ ساتھ عملہ کیلیئے بھی مصیبت بن چکا ہے ہمت ہے اس سٹاف کی جو صبح 9بجے سے رات 9بجے تک لگاتار اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں سنٹر کے اندر صرف 50افراد کے بیٹھنے کیلیئے انتظام موجود ہے جبکہ کل صارفین کی تعداد کم و بیش پانچ سو کے لگ بھگ ہوتی ہے وہ بیچارے سارا دن دھکے کھاتے اور دیتے ہیں اوپر سے اس سنٹر کی وجہ سے شہر میں ٹریفک مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے جو اکاؤنٹ ہولڈرز روات، گوجر خان، اور کشمیر کے دور دراز علاقوں سے آ تے ہین ان کے پاس تو گاڑیاں ہوتی ہیں اور وہ اپنی گاڑیاں سنٹر کے آس پاس روڈ پر کھڑی کر دیتے ہیں جس وجہ سے روڈ کے دونوں اطراف گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں اور شہر سے گزرنے والی ٹریفک کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ سنٹر سارفین عملہ اور پورے کلرسیداں کے عوام کیلیئے وبال بن چکا ہے ٹریفک وارڈن اس سنٹر کے آگے پیچھے پھنس کر رہ گے ہیں سڑک کے دونوں اطراف گاڑیاں کھڑی ہونے کی وجہ سے روڈ بلکل سکڑ کر رہ گئی ہے اور ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے بوڑھے بزرگ جو اس سنٹر کو اپنے لیئے سہولت سنٹر قرار دے رہے تھے اب وہ رو رہے ہیں کہ ہم کہاں پھنس گے ہیں اس مصیبت میں نہ صرف اکاؤنٹ ہولڈرز بلکہ ضعیف العمر بزرگوں کے ساتھ آنے والے ان کے قریبی بھی اس مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں یہ مسئلہ گھمبیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے گزشتہ منگل کو ایک کام کے سلسلہ میں مذکورہ سنٹر میں جانے کا اتفاق ہوا صبح 8بجے وہاں پہنچا اور جب شام 4 بجے نمبر آیا تووہاں پر موجود کیشئر نے جوا دیا کہ اب 4بج چکے ہیں اب ہم رقم وصول نہیں کریں گے کل آ جانا بلکل اسی طرح کے مسائل سے تمام صارفین دوچار ہو رہے ہیں اس سنٹر میں جانا اور اپنا کام مکمل کروا کر واپس آ جانا بہت جان جوکھوں کا کام بن چکا ہے اتنے بڑے علاقوں کا بوجھ صرف ایک محدود سنٹر پر ڈال دینا بھی بہت بڑی زیادتی کی بات ہے محکمہ پوسٹ اورقومی بچے کے اعلی حکام کو آپس میں مل بیٹھنا چاہیئے کہ اس معاملے کا کا کس طرح سے حل نکالنا ہے فی الحال ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر، روات میں بھی قومی بچت مراکز بنائے جائیں اور کلرسیداں سنٹر کو کسی بڑی کھلی بلڈنگ میں منتقل کیا جائے اور اس میں کام کرنے والے سٹاف کی تعداد بھی دگنی کی جائے سنترز کی تعداد بھی بڑھائی جائے یا ڈاکخانے پھر سے یہ کام سنبھال لیں اگر صورتحال بلکل اسی طرح رہی تو صارفین کے ساتھ ساتھ سنٹر میں کام کرنے والا سٹاف بھی زہنی مفلوج ہو جائے گا
120