آصف خورشید
مرزا گور تک نہ ملیا چور قلبیۤ
نہ ہی درداں تھیں مینوں آرام آیا
سر صوبہ شاہ تحصیل کلر سیداں سے شما ل کی جانب یونین کونسل منیاندہ کا سفر کیا جائے تو تقریباً5کلو میٹر کے فاصلے پر سر سبز و شاداب پہاڑیوں کے دامن میں پھیلی ہوئی خوبصورت وادی مرزے کی بستی پنڈ سکرانہ اپنا حسین نظارہ پیش کرتی ہے۔ علاقے کی خوبصورتی دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس بستی کا ہر نوجوان شاعرانہ صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔پوٹھو ہار کے لوگ اس بستی کو شاعروں کی بستی بھی کہتے ہیں۔مرزا ٓ شیر زمان۔عبدالخالق قلی، یاسر کیانی، گلستانی فرشیٓ، اشرف طالب اور ڈاکٹر عبد الرشید کیانی کے علاوہ کئی شعرا کا تعلق اس بستی سے ہے۔جنہوں نے اپنے کلام سے پوٹھوہاری شاعری کو ایک نئے انداز سے پیش کیا ہے۔پنڈ سکرانہ کو شاعروں کی بستی کہا جائے تو بلاشبہ یہ نام شیر زمان مرزٓا کا مرہون منت ہو گا۔آ پ 22جون 1924کو پنڈ سکرانہ میں پیدا ہوئے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس پسماندہ علاقے میں جنم لینے والا یہ بچہ رب کی دی ہوئی صلاحیتو ں سے اس قدر مزین ہو گا کہ وقت کے تقاضے اس بلندی پر پہنچا دیں گے کہ لوگ پوٹھوہاری شاعرشیر زمان مرزٓا کے نام سے یا د کریں گے۔بچپن ہی سے ایسی خداداد صلاحیتوں کے مالک، کہ 1942میں اس وقت میٹرک کا امتحان پاس کیا۔جب علاقے کی اکثریت الف، ب سے بھی واقف نہ تھی۔ اس کے بعد آرمی میں جونئیر کمشن نا ئب صوبیداربھرتی ہوگئے دوران سروس 1959کو آرمی کی طرف سے امریکہ چلے گئے۔جہاں تقریباً 24ممالک کی سیر کی اور اپنی خدمات سر انجام دی۔شاعرانہ طبیعت تو بچپن سے ہی تھی مگر زندگی کے رنج و الم اور نشیب و فراز ایسے آئے کہ بیتے ہوئے لمحوں اور کیفیات کو سپرد قلم کرنے لگے۔شاید یہی وجہ تھی کہ جس قدر اذیت، مصیبت، ملامت، بلائیں آپ کے سامنے آتی اس قدر مستحکم ہوتے گئے۔اسی وجہ سے ایک مقام پر کہتے ہیں کہ
مدوجزر اشنے روبرو جتنے
ہونڑی اتنی اْچی پرواز مری
کرنی مرزٓیا طوف میخانیاناں
پیتے باجھ نہیں ہونڑی نماز مری
زندگی کے آخری حصے میں ہر چیزسے بے نیاز ہو کر پوٹھوہاری صوفی کلام اور تصوف کو پوٹھوہاری شاعری کا لبادہ اوڑایا۔ علاقے کے جنگلوں اور ویرانوں کو اپنا مسکن بنایا۔
چھگی پا کے دشت بیابان اندر
کی لوڑناں اے کھکھا ں تے کانیا ں وچ
درد دل نی جگہ فقیر مرزا
ہونڑاں درد ہی درد دیوانیان وچ
آپ نے پوٹھوہاری شاعری کو ایک نئے اندازسے پیش کیا۔کیف ومستی سے سر شار ہو کر آپ نے اپنے کلام میں الفاظ کی پختگی کے ساتھ ساتھ تصوف میں غوطہ زن ہو کر وہ موتی نکالے جو آج (عشق رمزاں) کی صورت میں ایک مالا میں پرو دیے۔سرکار مرزاشیر زمان نے پوٹھوہاری میں طریقت، حقیقت اور معرفت الہیٰ پر وہ عارفانہ کلام پیش کیا۔ جو آج تک کوئی نہ پیش کر سکا۔آج بھی پوٹھوہاری شاعری شیر زما ن مرزٓا کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔ حب رسول عشق مصطفی اور یقین کامل میں اس قدر مگن کہ اپنی قبر کی زندگی کا احوال بھی اس عقیدے پر کرتے ہیں۔
ایسی زلزلہ روح زمیں اْتے
کھلا رہیا جے مری مزار ناں منہ
ایسنڑ نیڑے نہ منکر نکیر خوفوں
سڑنا بلنڑا تک کے طلبگار ناں منہ
گیسی مچ رولا گورستان اندر
روسنڑمردے ویکھ خاکسارناں منہ
ایسی لاشہ لحد تھی باہر مرزا
جے کر مویاں وی ڈھٹانہ یاراں منہ
اگریہ کہا جائے کہ مرزا شیر زمان نے تصوف اور معرفت کے وہ رنگ پیش کیے پڑھنے والے پر سحر طاری کر دیتے ہیں۔ ریکارڈ کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث آپ کا اکژ کلام یا تو ضائع ہو گیا۔ یا اس حالت میں موجود ہے کہ اس کو اصل حالت میں پڑھنا انتہائی مشکل ہے۔آپ کے کلام کے ایک مخصوص حصے کو یکجا کر (باقی صفحہ3نمبر07)
کے (عشق رمزاں) کی صورت میں ایک کتاب کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔باقی کلام بھی محفوظ کیا جا رہا ہے جو کہ کئی کتابوں پر مشتمل ہے۔اس تمام کام کی ذمہ داری ان کے لخت جگر، محقق، شاعر اور قائدانہ صلاحیتوں کے مالک یاسر کیانی سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ اس کلام کو مختلف مشاعروں میں پیش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیر زمان مرزٓاایک چھپا ہوا خزانہ تھا جس کو یاسر کیانی نے خطہ پوٹھوہا ر پر اشکار کر دیا۔پوٹھوہاری نوجوان شاعر یاسر کیانی اور بلبل پوٹھوہار سائیں گل فیاض جیسے شاعر اپنے آپ کو شیر زمان مرزا کاشاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
نہ دے دم دلاسے فضول مرزا
تیری حکمت قضانی موڑ سکدی
بلا آخر یہ مرد درویش یکم اکتوبر2002کو دنیا فانی سے یہ کہتے ہوئے کو چ کر گیا۔
رینڑی دنیا تد رنداں وچ مرزیااوے
میرے سخن نی تہی دھائی ریسی