معاشرہ میں کئی ایک ایسے عناصر ہوتے ہیں کہ جو اسکی تعمیر وترقی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ان عناصر کا کردار بنیادی بھی ہوسکتا ہے اور ثانوی بھی۔ کسی بھی معاشرہ میں یہ ممکن نہیں ہے کہ اک فرد ان تمام عناصر کو لے کر چل رہا ہو کہ جو معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں ۔
معاشرہ میں ایسے افراد موجود ہیں جو اپنی طبع کی وجہ سے کسی اک شعبہ زندگی یا کچھ کو اپنی جہدوجہد کا مرکز بنا کر زندگی گزار دیتے ہیں۔
ایسے افراد کی انفرادی اور اجتماعی کاوشیں ہی اک ہجوم کو قوم بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ جہالت کی گہرائیوں میں بسنے والوں کو اوج ثریا پر پہنچاتے ہیں۔ ایسے افراد قوموں کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور متعدد گمنامی اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں
لیکن انکے جلائے چراغ روشنی پھیلاتے رہتے ہیں اور پیچھے آنے والوں کے لیئے مشعل راہ ثابت ہوتے رہتے ہیں۔
قارئین کرام تمہید میں بیان کیئے گئے افراد میں شامل مرزا محمد نصیر (1942 تا2024) بھی شامل ہیں جنکی رحلت سوموار کے روز ہوئی۔ مرزا نصیر کا تعلق تحصیل کہوٹہ کے گاؤں بھورہ حیال سے تھا۔ قریب بیاسی سال کی عمر پائی اس دوران حصول معاش کے لیئے پہلے آرمی میں ملازمت کی اور نائب صوبیدار کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے جبکہ ازاں بعد پاکستان پوسٹ کیساتھ بطور پوسٹ ماسٹر بھورہ حیال منسلک رہے۔
قریب اک سال فالج کیوجہ سے صاحب فراش ہوئے اور اسی بیماری کیوجہ سے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ مرزا نصیر مرحوم برصغیر کی اکثریت کی طرح اہل تصوف و عرفان سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے محبت و عقیدت رکھنے والے بندے تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ اپنی ماں بولی اور علاقائی ثقافت سے محبت رکھنے والی شخصیت تھے۔
پوٹھوہار کی موسیقی کی ثقافت یعنی “شعرخوانی” سے خصوصی شغف رکھتے تھے اور گاہے گاہے شوقیہ طور پر شعرخوانی کاشغل بھی فرماتے اور نوجوان شعرخوانوں کی سرپرستی بھی کرتے رہے۔ اس سرپرستی کی زندہ و تابندہ مثال شعر خواں شہباز پوٹھوہار راجہ ساجد محمود ہیں۔
شعرخوانی کیساتھ شعروشاعری کے لیئے بھی مرزا نصیر مرحوم کی خدمات لاجواب و لاثانی ہیں
۔ مندرجہ بالا ہر دو ثقافتی معاملات کی خدمت اور بالخصوص زائرین عرس کھڑی شریف کی خدمت کے لیئے اپنے ہم فکر دوستوں سے مل کر راولپنڈی میں “انجمن طالب حق خدام سلطان کھڑی شریف” کی بنیاد 27 اپریل 1974 کو معروف شاعر راجہ مختار شاد مرحوم، راجہ گستاسب مرحوم (پہلے صدر انجمن)،حاجی ملازم مرحوم، راجہ افتخار ملنگی (موجودہ صدر) رکھی۔ اپنے علاقہ و خاندان سے سیکنڑوں افراد اس انجمن میں انکے ساتھ شامل ہوئے جن میں معروف شاعر راجہ یعقوب شیدائی مرحوم، مرزا یاروف، مرزا بشارت حسین اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر مرزاعدنان یعقوب بھی شامل ہیں۔
مرزا نصیر مرحوم اس انجمن کے بانی اور تاحیات سرپرست اعلی رہے۔ انجمن کے صدر شان ثقافت پوٹھوہار راجہ افتخار ملنگی نے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مرزا نصیر اک یار باش اور وسیع دسترخوان کے مالک شخص تھے ۔ انجمن بنانے کی بنیادی وجہ کھڑی شریف کے عرس کے موقع پر راولپنڈی و گردونواح کے زائرین کے لیئے ڈیرہ بنانا تھی جس میں ہر وقت لنگر کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے جبکہ چار سال قبل تک سالانہ بنیادوں پر عرس کے موقعہ پر اسٹیج لگایا جاتا جس پر پوٹھوہاری شعراء اپنا کلام پیش کرتے اور شعرخواں فن شعرخوانی کا مظاہرہ کرتے تھے
۔ یہ سلسلہ اسٹیجوں پر انتظامیہ کی پابندی کی وجہ سے ختم ہوگیا ہے جبکہ لنگر کا اہتمام اب کیا جاتا ہے۔ مرزانصیر کی زیر قیادت عرس مبارک کے موقع پر ڈالی بھی لے جائی جاتی رہی۔ مرزا نصیر مرحوم کی رحلت والے دن شہاز پوٹھوہار راجہ ساجد محمود نے اپنی تعزیتی پوسٹ میں حسب سابق اس بات کا اقرار کیا کہ دنیائے شعرخوانی کے اولین مربی و محسن مرزا نصیر مرحوم تھے۔
راجہ ساجد کے مطابق آج جس مقام پر وہ موجود ہیں اس کا بنیادی سہرا مرزا نصیر مرحوم کے سر ہے۔ مرزا نصیر میرے محسن تھے اور رہیں گے۔
معروف جوان شاعر و کالم نگار راجہ واجد اقبال حقیر نے مرزا نصیر مرحوم کی خدمات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مرزا نصیر جیسے بے لوث افراد کی ایسی خدمات جو کسی ستائش کی خاطر نہیں ہوتیں، وہ خدمات ہی ادب و ثقافت کی آبیاری کرتی ہیں اور یہ سلسلہ اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔
مرزا نصیر مرحوم کی شخصیت نے ماں بولی اور علاقائی ثقافت کی خدمت کا حق ادا کیا۔ دعا ہے کہ اللہ پاک مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے آمین