نوید ملک/نظام ریاست کو چلانے کے لئے صوبائی سے مرکزی سطح پر متعدد اداروں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے جن کی کارکردگی میں ملکی ترقی و عوام کی خوشحالی پوشیدہ ہوتی ہے تمام نظام کی کارکردگی کو مانیٹرنگ کرنے کے لئے متعدد محکموں کا قیام بھی الگ سے عمل میں لایا جاتا ہے جن کو سزاو جزا دونوں کے تعین کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے پاکستان میں سرکاری اداروں کے ملازمین میں کرپشن و انکے خلاف رشوت وصولی کی شکایات سامنے آنے پر 1956ء میں انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے نام سے ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا اپنے قیام سے 1961ء تک صوبے کے چیف سیکرٹری کے زیر انتظام رکھا گیا اس کے قوانین میں 1961 ء میں ترمیم کر کے 1974ء تک پھر 1974ء میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے رولز میں ترمیم کر کے اسکا دائرہ کار ضلعی سطح تک لایا گیا تاکہ سرکاری ملازمین کے خلاف وصول شکایات پر بہتر انداز میں کام تیزی سے ہو سکے 1985 ء میں اس کے تمام قوانین کا جائزہ لے کر اس میں چند ترمیم و چند اضافی قوانین کو پاس کر کے لاگو کیا گیا آخری بار 2014 ء میں ان کے قوانین میں معمولی ترمیم کی گئی تمام مراعات و تمام ترامیم کے باوجود اینٹی کرپشن کا یہ ادارہ نہ ہی اپنا کردار ادا کر سکا اور نہ ہی اپنی اہمیت و مقام بنا سکا رشوت لیتے رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والے سرکاری اسی محکمے کی عملے کی ملی بھگت کے سبب سزاوں سے بچتے رہے ملکی اخبارات و ٹی چینلز پر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی کاروائیوں کی نیوز سامنے آتی ہیں ہزاروں لاکھوں روپے کی رشوت وصولی کے دوران رنگے ہاتھوں گرفتاری ہوئی مگر پھر نہ جانے کونسا عمل سامنے لایا جاتا ہے رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والے پٹواری پولیس اہلکار کلرک و ڈاکٹر چند ماہ بعد ثبوتوں کی عدم دستیابی پر باعزت بری ہو جاتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کا ادارہ کئی خود تو کرپشن کی آماجگاہ نہیں بن گیا‘متعدد ترمیم کے باوجود اس کی حثیت و کردار ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے اب اس کے تمام انتظامی امور صوبائی دارلحکومت لاہور سے چلائے جاتے ہیں یہی اسکا مرکزی ہیڈ کواٹر ہے‘راولپنڈی میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ دفتر میں سو کے قریب سرکلاری ملازمین تعینات ہیں ان میں پنجاب پولیس کے 40کے قریب ملازمین و افسران بھی شامل ہیں جو رنگے ہاتھوں سرکاری ملازمین کو رشوت وصولی کے دوران گرفتار کرتے ہیں مگر پھر یہ ر سرکاری بابو کے ہاتھ صاف قرار بھی دے دئے جاتے ہیں راولپنڈی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ آفس میں 2019ء میں صرف 299 کیسز کا اندراج ہوا جبکہ پہلے سے درج کیسز کو ملا کر کورٹ سے صرف 6 کیسز میں رشوت وصولی پر ملازمین کو سزائیں ہو سکیں باقی تمام گرفتار ہونے والے مصلحتوں‘ قانونی خامیوں و محکمہ اینٹی کرپشن کے عملے کی نوازشوں کے سبب نیب قوانین کی طرح درپردہ ڈیل کر کے اپنے سرکاری عہدوں پر بحال ہو جاتے ہیں رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والے کیسے سزاوں سے بچ جاتے ہیں اس کا جواب کون دے گا؟ اتنے بڑے ادارے کے قیام کا اب کیا جواز بنتا ہے جب انکی کارکردگی صفر ہے تو؟ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ڈسٹرکٹ راولپنڈی کی سربراہ ڈائریکٹر کنول بتول نے پنڈی پوسٹ سے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہر ادارے میں بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے ہمارے ادارے میں سزاوں کے تناسب میں کمی کی وجہ درخواست دینے والا دوسرے فریق سے صلح کر کے کیس کی پیروی نہیں کرتا جس کے سبب ہم کیس کو عدالت میں بہتر انداز میں چلا نہیں پاتے کیسز کی انکوائریوں کے دوران دباو آتا رہتا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہر محکمے میں ایسا ہو تا ہے تاہم ہم اپنا کام بہتر سے بہتر انداز میں کرنے کی کوشش میں سزا دینے کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے سال 2020 ء میں ابتک صرف 89 کیسز کا اندارج ہوا ہے جس میں سے صرف 6 کیسز میں سزائیں مل سکئی ہیں عدالت سے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ راولپنڈی میں تعینات پنجاب پولیس کے انسپکٹر زاہد ظہور نے بتایا کی ہمارے پاس وسائل و نفری کی کمی ہے میرے پاس 100کیسز کی انکوائریاں اور 52سے زاہد کیسز کی تفتیش ہے ہاوسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کیسز زیادہ ہیں پنڈی پوسٹ کو ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ راولپنڈی آفس میں درجنوں نہیں بلکے سینکڑوں کیسز کی انکوئرایاں بھاری نذرانوں کے سبب التوا کا شکار ہیں پنجاب پولیس ضلع راولپنڈی سے جعلی تعلیمی اسناد کے سبب نوکریوں سے نکالے جانے والے اہلکاروں سے وصول تنخواہ کی وصولی‘ اورسیز پاکستانی خاتون کا گیگا مال کے سامنے موجود قیمتی پلاٹ کو ملی بھگت سے فروخت کرنے والے پٹواری گرداور و تحصیل دار کے خلاف کیسز التوا ء و سست روری کا شکار ہیں متعدد کیسز میں نامزد سرکاری اہلکار و افسران سزاوں سے بچنے کے لئے کیس میں التوا لا کر ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں اور بعض لے چکے ہیں تاکہ رشوت سے حاصل کروڑوں روپے کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے اور سرکار سے مراعات بھی لے لیں اینٹی کرپشن اسٹییبلشمنٹ راولپنڈی میں تعینات عملہ مراعات و ماہانہ تنخواوں کے حصول کے لئے بیٹھا دکھائی دیتا ہے کسی بھی کیس کے متعلق معلومات کے حصول کے کال کرنے پر پوری بات سننے کے بعد فرماتے ہیں یہ معلومات میرے پاس نہیں بلکے دوسرے افسر کا نام بتا کر فون بند کر دیا جاتا ہے موجودہ حکومت جس تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی ہے کیا اس کے اثرات اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب پر بھی پڑے گے یا کہ یہ ادارہ سفید ہاتھی بن کر ملکی خزانے پر بوجھ بنا رہے گا وزیر اعظم عمران خان و وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدرار کو صوبے پنجاب میں کرپشن کی روک تھام کے لئے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے قوانین میں ترمیم لا کر اس ادارے کو افعال کریں تاکہ اسکی افادیت و قیام کا مقصد سامنے آسکے سخت قوانین سامنے لائیں جائیں ذرائع کے مطابق اینٹی کرپشن اسٹیبملمنٹ میں کالی بھیڑوں کی کمی نہیں ہے رنگے ہاتھوں گرفتار رشوت لینے والے سرکاری افسران کلرکوں پٹوایوں سے یہ بھاری نذرانے لیکر ان کے ہاتھوں میں باعذت بری ہونے کا آڈر تھماتے ہیں صوبے پنجاب میں عوام کو درپیش مسائل کی ایک بڑی وجہ سرکاری محکموں کے افسران و عملے کی ہر کام میں رشوت طلب کرنا اور بغیر رشوت وصولی کے کام کو متعدد بہانوں سے التوا کا شکار بنانا ہے کیونکہ انھیں معلوم ہے اگر اینٹی کرپشن والوں نے گرفتار بھی کیا تو رہا ہو جائیں گے ڈیل کر کے صوبہ پنجاب میں بہتری کے لئے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے قوانین میں ترمیم کر کے اسے ایکٹو کرنے کی ضرورت ہے ۔
281