220

محنت میں عظمت کا عملی نمونہ: غازی مرجان

کبھی کبھی ماضی میں جھانک کر خوشی اور غم کا عجیب امتزاج محسوس کیا جا سکتا ہے۔
دسمبر کے سرد موسم میں چائے کی پیالی ہاتھ میں ہو اور مرحوم والد کے ساتھ گزرا ہوا وقت یاد آجائے تو اپنے اندر کے

احساسات کو بیان کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
میرا والد صاحب عاجزی، انکساری اور ذہانت کا ایک بہترین شاہکار تھے۔ غربت اور کم ذرائع آمدن والد صاحب کے غیرت اور امیدوں کو متزلزل نہیں کر سکے

۔ 6 بچوں کی پرورش اس انداز سے کی کہ کبھی محسوس کرنے ہی نہیں دیا کہ غربت بلند ارادوں کو ہرا سکتی ہے۔
گرمی، سردی، دھوپ کسی بھی موسم میں اپنے وقت پر مزدوری کے لیے نکل جاتے تھے۔
جب میں نے ہوش سنبھالا تو والد صاحب دن کے وقت ایک کھوکھے پر چائے فروخت کرتے تھے

اور رات کو کھاد کےایک گودام میں چوکیداری کرتے تھے۔
ولد صاحب نے ہم 3 بھائیوں کو دوست کی طرح رکھا اور ہر بات ہمارے ساتھ شئر کرتے تھے۔
فرماتے ہیں کہ 1940سے 1957 کے دوران جب سکول سے واپس آتے تھے

تو اپنے والد کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے تھے۔
میٹرک کے بعد دینی کتابیں کندھے پر رکھ کر گلی، کوچے محلے میں آواز لگا کر بھیجتے تھے۔
والد صاحب بتاتے ہیں

کہ 60 کی دہائی میں اکثر لوگ سرکاری ملازمت حصوصا فوج، پولیس اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
محنت میں عظمت ہے۔ یہ ایک مشہور کہاوت ہے اور والد صاحب اس کہاوت کا عملی نمونہ تھے۔ کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے تھے اور ہمیں بھی تاکید کرتے تھے کہ وقت کا ضیاع اللہ کے نعمتوں کی ناشکری ہے۔
محنت سے مل گیا جو سفینے کے بیچ تھا۔۔۔
دریائے عطر میرے پسینے کے بیچ تھا۔
کہتے ہیں کہ انسان کے سکھنے کے دو درسگاہ ہوتے ہیں۔ایک گھر جہاں والدین بچوں کو دینی و دنیاوی گر سکھانے ہیں

اور دوسرا تعلیمی ادارے جہاں بچے اپنا مستقبل سنوارتے ہیں۔
والد صاحب نے ہمیں گھر میں دینداری، دنیاداری اور تمیزداری پورے اخلاص کے ساتھ سکھائے۔
والد بچے کی جذباتی بہبود کی نشوونما میں ستون ہوتا ہے۔

بچے اپنے باپ کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ اصول وضع کریں اور انہیں نافذ کریں۔ وہ جسمانی اور جذباتی دونوں طرح سے تحفظ کا احساس دلانے کے لیے اپنے باپ کی طرف دیکھتے ہیں۔
گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں۔۔۔
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں۔
میرے والد صاحب 1940 میں پیدا ہوئے۔ میرے دادا ایک مذہبی شخصیت تھے اور انگریزوں کے خلاف مزاحمت میں حاجی میرزاعلی خان(فقیرایپی) کا ساتھ دیا۔ والد صاحب کہتے ہیں

کہ میری پیدائش پر دادا نے فقیر ایپی کے تجویز پر میرا نام غازی رکھا جو کہ سکول اندراج میں غازی مرجان درج ہوا۔
گھر کے ماحول کی وجہ سے والد کافی مذہبی تھے اور مجھے نہیں یاد کہ والد نے کبھی کوئی نماز تو دور کبھی تہجد بھی چھوڑی ہو۔
والد صاحب کی تربیت کا اثر رہا کہ ہم تینوں بھائیوں نے تعلیم پر توجہ دی اور الحمد اللہ ایک بھائی وکیل بنا جو کہ 2023 میں فوت ہوا، دوسرا بھائی سرکاری ہسپتال میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے

اور میں نے فارماسیوٹیکل سائنسز میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور آجکل ڈین فیکلٹی آف فارمیسی کے طور پر کام کر رہا ہوں۔
18جنوری 2018 کا دن ایک افسردہ دن تھا کہ جس دن میرے دوست اور میرے والد نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں