146

ماہ ِ ذی الحجہ کی اہمیت وفضلیت

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے حج اسلام کا اہم رکن ہے ا ور وقوفِ عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیاجاتا ہے،جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے ہی ممکن ہے یہ سب اللہ کہ فضل وکرم اور خاص عنایت کہ سبب ممکن ہے غرض رمضان کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنیکا بہترین موقع اللہ کی طرف سے دیاجاتا ہے لہٰذا ان ایام میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں،ذکر اذکارکریں،روزہ رکھیں، قربانی کریں احادیث میں ان ایام میں عبادت کرنے کے خصوصی فضائل وارد ہوئے ہیں،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ ارشاد فرمایا: کوئی دن ایسانہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہوں (صحیح بخاری)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک عشرہ ذی الحجہ سے زیادہ عظمت والے دوسرے کوئی دن نہیں ہیں، لہٰذا تم ان دنوں میں تسبیح وتہلیل اور تکبیر وتحمید کثرت سے کیاکرو ان ایام میں ہر شخص کوتکبیر تشریق پڑھنے کاخاص اہتمام کرناچاہیے،تکبیرِ تشریق کے کلمات یہ ہیں اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰہ الَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَر اللہُ اَکْبَر وَلِلہِ الْحَمْدُ
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاعرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ ایک سال قبل و بعد گناہوں کو معاف فرمادیگا اسلام میں کلمہ نماز روزہ، زکوٰۃ کے علاوہ صاحب حیثیت لوگوں پر حج کرنا فرضیت کہ درجہ میں ہے مسلمان ہر سال اسلامی مہینے میں ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہوکر وہاں ایک خاص طریقہ پرعبادت میں مشغول ہوتے ہیں اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اوراس میں دیگر اعمال کرنے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں دین اسلام میں حج ہرصاحب استطاعت بالغ عاقل مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے، جیسا کہ قرآن مجیدمیں بھی ہے اورحضرت محمد ﷺکی حدیث شریف میں بھی ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے توحید و رسالت کی گواہی دینا‘ نماز قائم کرنا‘ زکوۃ دینا‘رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔مناسک حج کی ابتدا ہر سال 8 ذوالحجہ سے ہوتی ہے حاجی متعین میقات حج سے احرام باندھ کرکعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں وہاں پہنچ کرطواف کرتے ہیں، منی روانہ ہوتے ہیں،یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں، وقوف کرتے ہیں، یوم عرفہ، یوم سعی،عید قربانی، یوم حلق و قصر وغیرہ پر عمل کرتے ھیں،حجاج رمی جمار(کنکریاں پھینکنے) کے لیے جمرہ عقبہ جاتے ہیں، بعد ازاں مکہ واپس آکر طواف کرتے ہیں منی جاکر ایام تشریق گذارتے ہیں اور دیگر حج کے جملہ مناسک مکمل کرتے ہیں‘ ملت حنفیہ کے متعلق قرآن میں ذکر ہے حضرت ابراہیم اور ان کے بعد بھی لوگ حج کیا کرتے تھے، مناسک حج میں ہجرت کے نویں سال حج فرض ہوا،حضرت محمدﷺ نے سنہ 10ھ میں حج کیا جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے اس حج میں حج کے تمام مناسک کو درست طور پر کر کے دکھایاگیاہے اور اعلان کیا کہ خذوا عنی مناسککم ترجمہ اپنے مناسک حج مجھ سے لے لو۔نیز اسی حج کے دوران میں اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔زندگی میں ایک بار صاحب
استطاعت پر حج فرض ہے اور اس کے بعد جتنے بھی حج کیے جائیں گے ان کا شمار نفل حج میں ہوگا؛ حضرت ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، چنانچہ حج ادا کرو صحابہ نے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہر مسلمان پر ہر سال حج فرض ہے؟” تو حضور ﷺ خاموش ہو گئے، دوبارہ سہ بارہ یہی سوال کیا گیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: «اگر میں ہاں کہہ دیتا تو واقعی فرض ہوجاتا اور ایسا تم لوگ نہیں کرپاتے پھر کہاجتنا میں کہوں اتنا سنو، اس سے آگے نہ پوچھوفرضیت حج کی پانچ شرائط ہیں پہلی شرط مسلمان ہونا، غیر مسلموں پر حج فرض نہیں اور نہ ہی ان کے لیے مناسک حج ادا کرنا جائز ہے دوسری شرط عقل مندہونا ہے، پاگل مجنون پر حج فرض نہیں۔تیسری شرط بلوغت ہے، نابالغ بچے پر حج فرض نہیں چوتھی شرط آزادی ہے، غلام و باندی پر حج فرض نہیں۔ پانچویں شرط استطاعت ہے، استطاعت کا مفہوم یہ ہے کہ حج محض ان افراد پر فرض ہے جو اس کی جسمانی و مالی استطاعت رکھتے ہوں یعنی جنکو اللہ نے مال و دولت جیسی نعمت سے نوازا ہو اور وہ وہاں جانے کہ اخراجات اٹھاسکتے ہوں ایسے لوگوں پر حج فرض ہے۔حج کی تین قسمیں ہیں:حجِ افراد: یعنی حج کے دنوں میں صرف حج کی ادائیگی کے لیے احرام باندھنا اورعمرہ نہ کرنا، اس میں قربانی واجب نہیں۔حجِ تمتع ایک ہی سفر میں پہلے عمرے کا احرام باندھا طواف و سعی کے بعد حلق کر کے اس احرام سے فارغ ہوگیا پھر حج کا وقت آیا تو حج کا احرام باندھا کیوں کہ ایک ہی سفر میں دو عبادتیں جمع کر نے کا فائدہ اٹھا لیا، اس لیے اسے’حج تمتع‘کہتے ہیں اور حج تمتع کرنے والے کو متمتع‘کہتے ہیں اور اس پر شکرانے کی قربانی واجب ہوتی ہے پاکستانی عازمینِ حج عموماً حج ِتمتع ہی کرتے ہیں۔حجِ قران ایک ساتھ ہی حج و عمرہ کا احرام باندھاپہلے عمرہ کے ارکان ادا کیے لیکن عمرے کی سعی کے بعد حلق یا قصر نہیں کیا بلکہ طوافِ قدوم اور حج کی سعی کرنے کے بعدبدستور حالتِ احرام میں رہا یہاں تک کہ ایامِ حج میں حج کے ارکان ادا کر کے حلق یا قصرکرایا اور احرام سے فارغ ہواحجِ قران کرنے والے پر بھی قربانی واجب ہوتی ہے۔ چوں کہ اس میں ایک ہی سفر میں ایک ہی احرام میں حج اور عمرہ کو جمع کرنا ہے، اس لیے اسے ”قران“ کہتے ہیں، اور جو شخص یہ حج کرے اسے’قارِن‘ کہتے ہیں۔واضح رہے کہ حجِ قران اور حجِ تمتع کرنے والے پر قربانی واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بطورِ شکر حج کی قربانی ہے، اگر متمتع یا قارن صاحبِ حیثیت ہو اور قربانی (عیدالاضحیٰ) کے ایام میں مقیم ہو، (مسافر نہ ہو) تو اس پر عیدالاضحیٰ کی قربانی اس کے علاوہ واجب ہوگی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں