کرپشن یا بدعنوانی ہمارے معاشرے میں اس قدر اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے کہ ہر جائز ناجائز کام اس کے بغیر ممکن نہیں۔ اکثر اس کے خلاف آواز بھی وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے یا تو کرپشن کر رہے ہوتے ہیں یا کر چکے ہوتے ہیں۔
کسی قریبی کرپٹ بندے سے شکایت کرو تو بڑے وثوق سے جواب دے دیتا ہے کہ یہ سسٹم کا خاصہ اور حصہ ہے۔
دن بدن حالات گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں صرف دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور ناجائز کام کو دولت کے زور سے جائز بنانے کو کرپشن یا بدعنوانی سمجھا جاتا ہے لیکن دراصل مذہب کا اپنے فائدے کے لئے استعمال بھی بدعنوانی ہے، سوچ اور فلسفے کا ناجائز استعمال بھی بدعنوانی، کسی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ادارے کے مفاد کے مقابلے میں اپنی ذاتی
مقاصد کے لئے ادارے کے وسائل کا استعمال بھی بدعنوانی ہے۔
سب سے بڑی بدعنوانی یہ ہے کہ حکمران ریاستی وسائل کو عوام کے مفاد کے خلاف استعمال کریں۔
بدعنوانی ایک معاشرتی اور اخلاقی برائی ہے جوکہ انفرادی اور اجتماعی طور پر معاشرے کو متاثر کرتی ہے۔
کوئی مذہبی شخصیت اگر اسلام کی صحیح تشریح صرف اس لئے نہیں کرتی کہ کہیں عوام میں شعور بیدار نہ ہو تو یہ بدعنوانی کی بدترین مثال ہے
رشوت یا تحائف کے لین دین سے حقدار اپنے حق سے محروم ہو جاتا ہے جس سے معاشرے میں ڈیپرشن اور بےچینی بڑھ جاتی ہے۔
اقراباء پروری بھی بدعنوانی کی ایک قسم ہے کہ جس میں بھرتی ترقی میرٹ پر کرنے کی بجائے رشتہ داروں کو نوازا جاتا ہے۔
بدعنوانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام کا اداروں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
رشوت یا مالی بدعنوانی کی وجہ سے آپس میں عزت ختم ہو جاتی ہے اور تمام تر اہمیت پیسے کو دی جاتی ہے۔
ایک دفعہ کسی کام کے سلسلے میں ایک دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔
وہاں چپڑاسی اپنے افسر کی حکم عدولی صرف اس لئے کر رہا تھا کہ اس کو رشوت لیکر بھرتی کیا گیا تھا۔
اسلام میں امانت اور حیانت مسلمہ اخلاقی اقدار ہیں۔
اسلام حلال اور جائز ذرائع آمدن پر زور دیتا ہے۔
حضور نے لوگوں کے درمیان حلال رزق اور جائز ذرائع آمدن کا احساس پیدا کرنے کے لئے فرمایا کہ قیامت والے دن بندہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے گا جب تک وہ پانچ باتوں کا جواب نہ دے۔ ان پانچ باتوں میں سےایک بات یہ ہے کہ تم نے جو دولت کمائی وہ کہاں سے اور کن ذرائع سے حاصل کی اور پھر اس کو کن جگہوں پر خرچ کیا۔
بدقسمتی سے ہم یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ ہم نے مرنا بھی ہے اور قیامت بھی آئے گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “امانت کا وصف اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے”۔
اب ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم نے فطرت کو بھی چھوڑ دیا ہے کیونکہ ہم نہ تو اپنی جاب میں امانت کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی دولت میں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک روایت موقوفاً بیان کی ہے کہ
“اللہ کی راہ میں شہید کیا جانا تمام گناہوں کا کفارہ ہے لیکن امانت کا کفارہ نہیں۔
ہمارے ملک میں بدعنوانی کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں اور ادارے بھی لیکن بدعنوانی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟؟؟؟
آپ کسی بدعنوان آفیسر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لئے قانون کا سہارا لینے جائے تو سب سے پہلے پوچھا جاتا ہے کہ ثبوت ہے؟؟؟
اب ثبوت بندہ کدھر سے لے آئے؟ تصویر، آڈیو، ویڈیو کو آج کے زمانے میں مانا نہیں جاتا اور جو رشوت لینے دینے میں ملوث ہیں وہ ثبوت چھوڑتے نہیں۔
اب جب ادارے ناکام ہو رہے ہیں تو کوئی تدبیر تو کرنی ہوگی
ذہن سازی ایک کارگر گر ثابت ہو سکتا ہے۔
نبی کریم نے فرمایا کہ “اگر کسی سے ساری دنیا کی چیزیں چھن جائیں اور اس کے پاس امانت کا وصف باقی رہ جائے تو اسے کسی چیز کا تاسف نہیں”۔ آپ نے فرمایا:
“مومن میں ہر بری عادت ہوسکتی ہے لیکن خیانت اور جھوٹ اس میں نہیں آسکتا”۔
ایک تحریک کی ضرورت ہے کہ جس میں انفرادی طور پر ہر شہری کو یہ احساس سکھایا جائے کہ مالی، اخلاقی اور مذہبی بدعنوانی معاشرے کے لیے زہر ہے