آج میں بحیثیت پوٹھوہاری اپنی مادری زبان پوٹھوہاری لکھنے اوربولنے میں اس قدرنااہل یا مجبور ہوں کہ لفظ ماڈرن کا مجھے اپنی مادری زبان میں متبادل لفظ ذہن میں نہیں آ رہا، آجکل کی جدید مائیں جو اپنے نونہال کو منہ بگاڑ بگاڑ کر انگلش یا دوسری یورپین زبانیں سکھانے میں بہت فخر محسوس کر رہی ہوتی ہیں، مجھے معلوم نہیں کہ ہم اپنی اس مادری زبان کو کب تک زندہ رکھ سکیں گے،مجھ سمیت دیار غیر میں بسنے والے ہر پاکستانی کو معلوم ہے کہ یورپی قوموں کے علاوہ جاپانی اور چینی قومیں کس طرح اپنی قومی اورمقامی زبانیں کتنے فخر سے خود بھی بولتی ہیں اور اپنی مادری یامقامی زبانیں اپنی نئی نسل کو منتقل کرنے کیلئے بھی کوشاں رہتی ہیں اور ان کی نئی نسلیں بھی اپنی قومی اور علاقائی زبانیں بول کرفخر محسوس کرتی ہیں، ان ممالک کے خواہ وزیراعظم ہوں یا وزرائے اعلیٰ،چیف ایگزیکٹو ہو یا عام شہری دفتری یا کام کے اوقات میں تو سرکار زبانیں ہی بولتے ہیں مگر اپنی گھریلو زندگی میں سب اپنی اپنی علاقائی زبانیں بولتے ہیں،میں آج کل پاکستان آیا ہوا ہوں اور کل ہی رات کو دعوت پر جانا ہوا، اتفاق سے میں بچوں کے میز پر کھانا کھانے لگا تو چمچ کی ضرورت پڑی اور بڑے فخر سے بچوں سے پوچھا چمچ کو پوٹھوہاری میں کیا کہتے ہیں تو بچوں نے جواب دیا spoonتو بات سمجھ میں آگئی کہ آجکل ماڈرن پوٹھوہاری مائیں جو بچوں کو ”کاشک“ کی بجائےspoonسکھا کر اپنی مادری زبان پوٹھوہاری سے کتنی وفاداری کا ثبوت دے رہی ہیں؟ سوال یہ کہ اس طرح اپنی مادری زبان کی بے قدری کر کے اور تباہی کے دہانے پر پہنچا کر ہمیں بس اس دن کا انتظار کرنا چاہیے جب ہماری آئندہ نسلیں پوٹھوہاری کی الف ب سے بھی نابلد ہوجائیں گی،جو قومیں زندہ رہنا چاہتی ہی وہ اپنی مادری زبانوں نہ صرف فخر کرتیں ہیں بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی منتقل کرنے کی فکر میں رہتی ہیں مگر یہ سب کچھ ماں کی گود سے شروع ہوا کرتا ہے۔پوٹھوہاری مائیں اس خطے کے تہذیب و تمدن کو بچانے کیلئے اپنی ذمہ داری نبھائیں اور انگریزی اردو کیساتھ ساتھ پوٹھوہاری زبان بھی بچوں کیساتھ گھروں میں بولا کریں۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ پوٹھوہاری زبان کے فروغ اوراسکے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھائے۔
104