144

لوسر کچرا کنڈی بیماریوں کی آما جگاہ

اگر آپ راولپنڈی سے لاہور کی طرف جائیں تو پہلا قصبہ روات نامی ہے اور روات سے قریب تین کلومیٹر آگے جائیں تو دائیں طرف ایک سڑک مڑتی ہے کہ جوچک بیلی خان روڈ کہلاتی ہے کیونکہ یہ سڑک چک بیلی خان نامی قصبہ کو جاتی ہے۔ اس چک بیلی روڈ پر بھمبھلی کے مقام کے قریب لوسر نامی گاؤں ہے۔ جبکہ اس کے اردگرد محض چند میٹرزکے فاصلے پر بیشمار گاؤں و آبادیاں ہیں۔ کچھ پولٹری انڈسٹری سمیت دوسرے صنعتی یونٹ بھی ہیں۔ جبکہ اس علاقہ میں مزید بہت سی رہائشی کالونیاں بھی بن رہی ہیں۔ گویا اگر آپ اس علاقہ کا مطالعاتی سفر کریں تو آپ کو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ یہ علاقہ آبادی کے لحاظ سے کافی گنجان ہے۔ مگر سن دو ہزار چار پانچ میں کچھ اعلیٰ سطح کے سیاسی سرمایہ داروں نے کچھ مقامی پراپرٹی ڈیلرز کیساتھ مل کر زمینوں کو خریدا اور ایک معاہدہ کے تحت پھر اس زمین کو راولپنڈی کی انتظامیہ کے حوالے کردیا۔ اور سب کچھ جان بوجھ کر سوچ سمجھ کر راولپنڈی کی انتظامیہ نے یہاں کچرا کنڈی بنا دی۔ اب دنیا جہاں کا کچرا یہاں پھینکا جا رہا ہے۔دنیا بھر میں جہاں کئی بھی کچرا ڈمپ کیا جاتا ہے اور میں یہ بات کسی مغربی یا شرق الوسط کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی نہیں کرتا بلکہ تیسری دنیا کے غریب ممالک بھی دیکھ لیں وہاں پر کم از کم احتیاطی اقدامات ضرور کئے جاتے ہیں تاکہ اس گندگی سے دوسرے مسائل پیدا نہ ہوں۔ بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کچرا کا نہایت ہی مفید استعمال کیا جاتا ہے بلکہ کچرا اٹھانے والی کمپنیوں کو کروڑوں ڈالر کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ مطلب جو کمپنی کسی بڑے میٹرو پولیٹن سے کچرا اٹھانے کی خواہش کرتی ہے وہ کروڑوں ڈالر متعلقہ شہر کی انتظامیہ کو ادا کرتی ہے۔ کیونکہ اس کچرا سے اربوں روپیہ کا خام مال حاصل ہوتا ہے کہ جس کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ پھر اس سے بجلی اور گیس کی پیداوار کی جاتی ہے۔ مذید اس سے مختلف قسم کے جانوروں کی خوراک اور کھاد بنائی جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ لوسر کچرا کنڈی کا دورہ کریں تو آپ کو حیرت ہوگی کہ یہاں کوئی احتیاطی تدابیر بالکل نہیں ہیں۔ راولپنڈی بھرکا کچرا اٹھا کر کھلے آسمان کے نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔ نہ اس کے ارد گرد کوئی دیوار ہے نہ باڑ۔ اور اس کی وجہ سے انتہائی گندی بدبو قریبی آبادیوں پر مشتمل لاکھوں انسانوں کے نتھنوں کے ذریعے پھیپھڑوں میں شامل ہوتی رہتی ہے۔ دنیا بھرمیں موجود ہر قسم کے خطرناک جراثیم ہر شخص میں دن رات شامل ہو رہے ہیں۔ رہ جانے والی کسر یہاں آنے والے غلیظ پرندے جیسے کرگس گرج کوے وغیرہ پورا کرتے ہیں۔ مچھروں اورمکھیوں کی فراوانی ہے۔ اور پھر چونکہ یہاں کوئی حفاظتی دیوار موجود ہی نہیں سو علاقہ کے جانور آزادی سے یہاں گلی سڑی سبزیوں اور پھلوں کی لالچ میں آتے ہیں اور اپنے گوشت و دودھ میں جراثیم کا ایک سمندر داخل کر لیتے ہیں۔ زیر زمین کنوؤں اور مقامی تالابوں کا پانی سخت آلودہ ہے۔اس کے علاوہ یہاں معاہدہ صرف راولپنڈی کا تھا۔ یعنی راولپنڈی میٹروپولیٹن کے تمام علاقہ کا کچرا لیاقت باغ میں ڈمپ کیا جاتا ہے اور وہاں سے اس کو لوسر کچرا کنڈی میں بڑی گاڑیوں سے شفٹ کیا جاتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر قانونی و غیر اخلاقی طور پر راولپنڈی شہر کے گرد نواح دوسری تحصیلوں مثلاً کلر سیداں گوجرخان مری ٹیکسلا فتح جھنگ بہارا کہو مندرہ روات اڈیالہ وغیرہ سے بھی تمام کوڑا غیر قانونی طریقہ سے رشوت لیکر لوسر میں ہی پھینکا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کے افسران اور راولپنڈی کی انتظامیہ کھلم کھلا رشوت لیکر بیشمار نجی صنعتی و تجارتی یونٹس کو بھی یہاں اپنا فضلہ ڈمپ کرنی کی اجازت دے رہی ہے۔ اگر کبھی اس پر بھی رنگ روڈ کی طرز پر کوئی کمیشن بنایا گیا تو یہ بات معلوم ہو گی کہ یہاں اربوں روپیہ بنایا جا رہا ہے۔اس موضوع پر جب ہم نے تحقیق کی تو بہت عجیب و غریب حقائق سامنے آئے۔ اول تو کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ کسی ملک میں کوئی حکومت دیتی نہیں بلکہ لیتی ہے جیسا کہ اوپر تحریر کیا جا چکا ہے کہ حکومت کچرا اٹھانے والی کمپنیوں سے نہ صرف کروڑوں روپیہ لیتی ہے بلکہ اس ٹینڈر میں شرکت کرنے والی کمپنیوں سے تمام شرائط منواتی ہے یعنی ان سے اول یہ طے کیا جاتا ہے کہ حکومت صرف ڈمپنگ سائیٹ کی زمین مہیا کرے گی لیکن اس کے علاوہ متعلقہ کمپنی تمام مشینیں پہلے وہاں لگائے گی اور دیگر تمام احتیاطی امور مکمل کرے گی کہ جس سے جراثیم و گندگی عام عوام کی پہنچ سے دور رہے اور اس واسطے کچرا کنڈی کے چاروں طرف مضبوط دیوار غیر ضروری جانوروں اور پرندوں کو اندر آنے واسطے روکنے کے لئے بنائی جاتی ہے۔ اس کے بعدمتعلقہ کمپنی کی یہ قانونی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بند گاڑیوں میں کچرا شفٹ کرے۔ اور وقتاً فوقتاً مکھیوں مچھروں اور دوسرے مضر صحت اور مضر جان حشرات و ارض کے خاتمے واسطے کیمیکل کا چھڑکاؤ کرے۔ اس کے علاوہ اس علاقہ میں موجود پانی کے تمام ذخائر خواہ کنوئیں ہوں ندی نہریں یا تالاب ان کے پانی کو آلودہ ہونے سے بچانے واسطے تمام اقدامات کرے۔ اس کے علاوہ کچرا کنڈی کے اردگرد شجر کاری کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے تاکہ کاربن کے بیشمار ذخائر سے نبر آزما ہوا جائے اور ایسا کچرا کہ جس کا کوئی مثبت استعمال ممکن نہیں ہو سکتا اس پر فوراً مٹی کی طے ڈال کر اس کو خاک برد کر دیا جاتا ہے۔ لیکن لوسر کچرا کنڈی میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ یہاں کی مقامی آبادی کے بقول راولپنڈی انتظامیہ کا معاہدہ دو ہزار سولہ کو ختم ہو چکا ہے اور ان کے حق میں پنجاب ہائی کورٹ فیصلہ بھی دے چکی ہے۔ دوئم جب دو ہزار سترہ سے انیس تک مقامی لوگوں نے اس پر احتجاج کیا تو انتظامیہ نے کچھ یقین دہانیاں تحریری طور پر کروائی تھی لیکن ان پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ سو اس تمام صورت حال میں ہم حکومت سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنائے کہ جس کے مقاصد اور ہداف مندرجہ ذیل ہوں یعنی مندرجہ ذیل امور بارے تحقیق کر کے کمیشن اپنی سفارشات کے ساتھ حکومت کو مکمل رپورٹ دے۔ یہاں کہ جہاں بیشمار آبادی صدیوں سے مقیم ہے میں کچرا کنڈی بنانے کا فیصلہ کس نے اور کیوں کیا اور اگر یہ فیصلہ کر ہی لیا گیا تھا تو پھر بین الاقوامی معیار کو ایک طرف رکھیں کم از کم احتیاطی اقدامات کیوں نہ کئے گئے۔ جب یہاں کچرا ڈمپ کرنے کا قانونی اور فطری وقت ختم ہو چکا ہے تو پھر اس کا متبادل ابھی تک کیوں نہ بنایا گیا۔ راولپنڈی شہر کے علاوہ دوسرے علاقوں اور خاص کر نجی اور ذاتی صنعتوں کا فضلہ یہاں کس قانون اور اختیار سے پھینکنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کے ارباب اختیار کے مطابق تحصیل گوجرخان کے علاقہ جاتلی کے قریب اس مقصد واسطے ذمین ایکوائر کی جا چکی ہے تو وہاں کچرا ڈمپ کرنے میں کون سا امر مانع ہے اور اگر وہاں پر ابھی تک کچرا ڈمپ نہیں کیا جا رہا تو اس ذمین کا استعمال کون اور کیوں کر رہا ہے۔ ہم پورے یقین سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مندرجہ بالا امور پر تحقیق کی جاتی ہے تو اس سے نہ صرف انتظامیہ کی نا اہلی واضح آشکار ہوگی بلکہ اس کے اندر سے ملین آف ڈالرز کے سکینڈل برآمد ہوں گے اور پھر اس کے بعد کم از کم عوام کو اس حد تک تو ریلیف ملے گا کہ کچھ نا کچھ احتیاطی اقدامات کر دئیے جائیں گے۔ جس سے عوام ہائی پاٹائیٹس جلدی موذی بیماریوں سے شاید کسی حد تک محفوظ ہو سکیں۔یہاں پر بحثیت ایک عام پاکستانی کے میرا سوال اعلی انتظامی افسران سیاسی قیادت اور پالیسی میکر سے یہ بھی کہ اگر آپ وقت نکال کر اس علاقہ میں خود تشریف لیکر آئیں اور دیکھیں کہ لوسر اور اس سے معلقہ علاقوں اور گاؤں مثلاً ہرکہ بھرتھہ میرا بھمبھلی تھوبہ موڑہ کوٹیاں وغیرہ بلکہ بگا شیخاں سے بسالی موڑ اور گوہڑہ راجگان سے کرپال تک کی حالت کیا ہے خاص کر شام کو جب ہوا چلتی ہے تو بدبو کا ذور اور مکھی و مچھروں کی انتہاء کس طرح عام آدمی واسطے جہنم بناتی ہے۔ بلکہ یہ واحد بدقسمت علاقہ ہے کہ جہاں لوگ نماز پڑھ کر ہوا نہ چلنے کی دعا کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ جیسا ہی ہوا چلی تو پھر نہ کوئی کھانا کھا سکتا ہے اور نہ پانی پینے کا دل کرتا ہے اور یہ عذاب مقامی آبادی سالوں سے بھگت رہی ہے۔ دوسرا اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر کروڑوں کا خرچہ ہو رہا ہے۔ وجہ محض نا اہلی بے احتیاطی ہے۔آخر میں ہم انتظامیہ کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ اب مقامی آبادی بالکل مایوس اور بدل ہو چکی ہے اور اب وہ لوگ مذید ظلم برداشت کرنے کی سکت سے مرحوم ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے مجھے مقامی لوگوں نے یہ بتایا ہے کہ وہ اب راست اقدام کرنے کا سوچ رہیں ہیں۔ یعنی اب وہ مذید کسی عدالتی یا انتظامی ادارے سے رجوع کرنے کے بجائے براہ راست راست اقدام کریں گے۔ مثلاً کچرا کنڈی کے دروازوں کو تالہ لگا کر بلدیہ راولپنڈی کی تمام سرکاری گاڑیاں کہ جو کچرا پھینکنے واسطے استعمال ہوتی ہیں کو کچرا کنڈی میں ہی بند کر دیں گے۔ اور اگر مقامی آبادی یہ انتہائی اقدام کرتی ہے تو پھر انتظامیہ واسطے مذید مسائل بن سکتے ہیں آخر آپ کب تک کتنوں کو گرفتار کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے اعلی حکومتی ارباب اختیار اس پر انسانی ہمدردی کے تحت غور کریں اور جلد از جلد اس کا کوئی ایسا قابل عمل حل نکالیں کہ جس سے نہ صرف کچرا ٹھکانے کا کام مستقل بنیادوں پر حل ہو جائے بلکہ مقامی آبادی کی جان بھی اس گندگی بھرے عذاب سے ہمیشہ واسطے چھوٹ جائے۔ میں نہیں جانتا کہ کوئی اعلی سرکاری ذمہ دار ہماری اس گزارشات پر غور کرے گا اور عوام کی بھلائی پر غور کرے گا یا پھر معاملات جوں کہ توں چلتے رہیں گے۔ اور عوام پر ظلم حسب سابق جاری و ساری رہے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں