انجینئر قمرالاسلام راجہ
اتوار 14 اپریل کو پنڈی پوسٹ میں انتہائی محترم اور شفقت کرنے والے بھائی طارق بٹ صاحب نے میرے متعلق انتہائی خوبصورت الفاظ استعمال کرکے اپنے حسن ظن کا اظہار کیا ہے۔ ان کا یہ اظہار شفقت کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ 2007 میں میری زندگی کے پہلے سیاسی الیکٹرونک انٹرویو سے لے کر آج تک انہوں نے ہمیشہ میرے لیے اچھے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ویسے بھی ان کے کالم ہمیشہ حقائق کے عین مطابق ہوتے ہیں۔کالم نگار کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ اپنی رائے قائم کرنے کے لیے اسے دستیاب معلومات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ میرے محترم بھائی نے بھی دستیاب معلومات کی بنا پر جو رائے قائم کی ہے وہ یقینا درست ہو گی مگر چونکہ کالم میرے متعلق ہے اس لیے وضاحت کے حق کو استعمال کرتے ہوئے مودبانہ طور پر کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کالم میں اپنے روایتی محبت بھرے انداز میں انہوں نے میرے انداز سیاست کا جائزہ لیا ہے جس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ جیسے میں سیاست سے دستبردار ہو کر گھر بیٹھ گیا ہوں اور سیاسی میدان اپنے حریفوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے۔میرے تمام دوست گواہ ہیں کہ میں کبھی بھی سیاسی سلطان راہی نہیں رہا۔ہمیشہ دھیمی مگر مضبوط سیاست کی ہے۔دھرتی ہلا دینے والے ڈائیلاگز کبھی نہیں بولے مگر جب ڈٹ جانے کا وقت آیا تو پھر تاریخ رقم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ میاں برادران کو درپیش نااہلی اور گورنر راج کی 2009 کی کڑی آزمائش ہو یا 2018کی کربلا ، کبھی پیٹھ نہیں دکھائی اور اس کی گواہی اس خاندان کا ہر فرد بھری مجلسوں میں دیتا ہے۔ہاں یہ درست ہے کہ نہ ہی میں نے بستی بستی جاکر اپنی استقامت اور بہادری کا ڈھنڈورا پیٹا اور نہ ہی مشکل وقت میں اپنے ہی لشکر پر تیر چلانے والوں کے ساتھ اپنا موازنہ کرکے اپنا قد بڑھانے کی کوشش کی۔ میں جو کچھ بھی ہوں اور جیسا بھی ہوں گلی کوچے میں گھومنے والا عام پارٹی ورکر بخوبی جانتا ہے۔مجھے اللہ کے فضل و کرم سے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ صرف مشکل ترین وقت میں ہی اپنا آپ نہیں منوایا بلکہ آسان وقتوں میں بھی دن رات اپنا لہو جلا کر پارٹی کی کارکردگی میں بھرپور حصہ ڈالا ہے جس کے معترف میاں نواز شریف سے بھی زیادہ میاں شہباز شریف ہیں۔اونچی ایڑی کا جوتا پہن کر قد بڑھانے کا شوقین نہیں اور اس ضمن میں صرف اتنی وضاحت ہی کافی سمجھتا ہوں کہ جب 2013 میں سی پیک ، انرجی اور انفراسٹرکچر کے فقید المثال منصوبوں پر مشتمل ملکی ترقی کی بنیاد رکھنے کے لئے چین جانے والے وزیراعظم کے بارہ رکنی وفد میں شامل کیا گیا تو بہت سارے بڑے بڑے لیڈروں کے فرشتوں کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا۔ یہ چھوٹی سی مثال اس لئے دی ہے کہ الیکشن 18 سے پانچ سال پہلے بھی میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو مانگے تانگے کے اونچی ایڑی والے جوتے کے بغیر بھی ہجوم میں بخوبی نظر آتا تھا۔جارحانہ سیاست پتہ نہیں کس چڑیا کو کہتے ہیں، میرے تو معصوم بچوں نے بھی خوف و ہراس کی اس فضا میں پارٹی کا پرچم نہیں گرنے دیا جب ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کا والد کہاں اور کس حال میں ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ پندرہ دن کے بعد نیب افسران کی موجودگی میں ان کے روزانہ شیو کرنے اور کپڑے بدلنے والے والد کو بری طرح بڑھی ہوئی داڑھی اور کئی روز کے میلے بدبودار کپڑوں میں انکے سامنے بٹھا دیا گیا تب بھی بجائے حوصلہ ہارنے کے یا مشوروں اور دھمکیوں کو قبول کرنے کے انھوں نے واپس آ کر اپنی مہم میں مزید زور پیدا کر دیا۔ رہائی کے بعد کے میرے انٹرویو دیکھنے اور بیان پڑھنے کے بعد کوئی بھی دوست مجھے بعد از رہائی کسی اور لیڈر کا بھی کوئی انٹر ویو یا بیان دکھا دے۔ پچھلی صفوں میں بیٹھنا اور سر جھکا کر چلنا میری مجبوری یا کمزوری نہیں بلکہ عادت اور مزاج کا حصہ ہے۔معاونین خصوصی تو خیر تھے ہی بادشاہ۔ مجھ سے بھی زیادہ بوسیدہ اور اڑی رنگت کے کپڑے پہننے والا اس خطے کا ہر باسی یہ گواہی دے گا کہ پچھلے بارہ برس میں ہمیشہ ان کی چار پائیوں کی ادوان پر بیٹھا ہوں۔ نہ کبھی ان کی چارپائیوں کے سرہانے بیٹھنے کی کوشش کی اور اور نہ کبھی ان کے ٹوٹے پھوٹے فرش پر بیٹھنے سے اجتناب کیا۔ اگر ایسا کرنا کمزوری اور ناکامی ہے تو پھر بھی میں
اپنے آپ کو بدلنے سے رہا۔اقبال نے کہا تھا
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
جو رزم حق وباطل ہوتو فولاد ہے مومن۔
میں ان لیڈروں میں سے نہیں ہوں جو ناتوانوں اور کمزوروں پر کڑکتے اور گرجتے ہیں مگر سامنے سے گولا باری آئے تو پورس کے ہاتھی بن کر اپنی ہی صفوں کو روند ڈالتے ہیں۔میں اپنے آپ کو کسی کا بھی مقابل نہیں سمجھتا اور ہمیشہ اللہ کے کرم کا طالب رہتا ہوں۔ یہ سطریں بھی شاید کبھی نہ لکھتا مگر جب نام لے کر تقابل کیا جائے تو پھر اپنے ورکرز کے جذبات کو مد نظر رکھ کر ریکارڈ درست رکھنے کے لئے تھوڑی بہت وضاحت ضروری ہو جاتی ہے۔اب بات سیاسی حکمت عملی کی بھی ہو جائے۔جب رہائی ہوئی تو ہر یونین کونسل کے پارٹی ورکروں کی پرزور دعوتیں آئیں ۔ میرے لئے بہت آسان تھا کہ این اے 59 اور پی پی 10 میں ہلچل مچا دیتا مگر مجھے یہ احساس تھا کہ 2018 کے الیکشن میں پارٹی تقسیم ہے۔ لہذا میں نے پارٹی کے وسیع تر مفاد میں یہ فیصلہ کیا کہ جب تک یہ دراڑیں ختم نہیں کر پاتا تب تک کسی بھی ایسی سرگرمی سے اجتناب کروں جو اس تقسیم میں مزید اضافے کا موجب بنے لہذا یہاں تک احتیاط کی کہ سوائے پہلے چند دنوں کی ملاقاتوں کے،ملنے کے لئے آنے والوں کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے گریز کیا۔ پارٹی کے لاتعداد ایسے لیڈروں، ورکروں اور دوستوں سے ملاقاتیں یا بات ہوئی جوالیکشن کے وقت کسی جھوٹے پروپیگنڈے خوف یا غلط فہمی کی بنا پر پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکے تھے اور کشادہ دل کے ساتھ ان کی وضاحتوں کو قبول کیا۔اس تمام عرصے میں میرا ایک ہی پیغام تھا اور ہے کہ تمام دوست شیر کے نشان پر متفق اور اکٹھے ہوں اور باقی کام پارٹی قیادت پر چھوڑ دیں۔ میں شاید یہ انکشاف بھی کبھی نہ کرتا مگر اب برادرم طارق بٹ صاحب کے کالم کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ میں یہ تمام عرصہ خاموشی سے گھر نہیں بیٹھ گیا تھا۔ جہاں تک حکومت وقت کا تعلق ہے تو اس وقت انہیں کسی مخالف کی ضرورت نہیں کہ تمام کردار وہ خود ہی ادا کر رہی ہے۔ اس عرصے میں جس طرح سینکڑوں مقامی لیگی رہنما¶ں سے ملاقاتیں ہوئیں یا جنہوں نے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حلقہ پی پی 13 سے جیپ کے نشان پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے امیدوار بھی ایک ہفتہ قبل میرے ڈرائنگ روم میں بیٹھے مسلم لیگ نون کے ساتھ اپنی مکمل اور غیر مشروط یکجہتی کا یقین دلا رہے تھے۔ یہ سلسلہ بھرپور طریقے سے جاری و ساری ہے اور انشاءاللہ مسلم لیگ نون کا جادو سر چڑھ کر بولے گا۔ اس وقت پورے این اے انسٹھ اور پی پی دس میں ایک بھی لیگی پس منظر والا امیدوار نہیں جو آمدہ بلدیاتی الیکشن میں شیر کے نشان کے علاوہ کسی انتخابی نشان کا طالب ہو۔ یہ وقت درختوں پر چڑھ کر پھل توڑنے کا نہیں ہے بلکہ جھولی میں آتے پھلوں کو سنبھالنے کا ہے۔ سیاسی پارٹی بذات خود ایک بہت بڑا مقناطیس ہوتی ہے۔ رہا سوال جھوٹے پروپیگنڈے کا تو اس کا سامنا آج سے نہیں 2007 سے کر رہا ہوں لیکن واقعات گواہ ہیں کہ جھوٹ کا جواب جھوٹ سے کبھی نہیں دیا ۔ 2007 میں جب میں سیاست میں نو وارد تھا تو مجھے اس وقت کے ایک صوبائی وزیر کے قد و قامت کے مقابلے میں سیاسی بونا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور جملے کسے جاتے تھے۔ پھر 2009 سے لے کر 2013 تک ایک سابق ایم پی اے کے ساتھ ساتھ بھٹو صاحب کے ایک سابق مشیر کے ساتھ بھی روزانہ کی بنیاد پر میرے قد کا تقابل کیا جاتا رہا مگر قدرت کے فیصلے نرالے ہوتے ہیں ۔ پھر 2013 سے 2018 تک معاونین خصوصی کو پیمائش کے لئے میرے سامنے لا کھڑا کیا گیا۔ پھر 2018 کا انتخابی میلہ سجا تو ہاتھی اور چیونٹی کی مثالیں دی جانے لگی مگر سورہ فیل کا ورد اور عام آدمی کی دعا دونوں اپنی اپنی جگہ خاص اثر رکھتے ہیں۔ برادر محترم طارق بٹ صاحب کی معلومات کا یقینا کوئی خاص ذریعہ ہوگا مگر مجھے یقین واثق ہے کہ یہ محض ان کے کسی ہمسائے کی خواہشات ہیں کہ جن کو معلومات بنا کر ان کے سامنے پیش کیا گیا اور جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ ایک کالم نگار اپنے تجزیہ کی تمام تر عمارت دستیاب معلومات پر ہی تعمیر کرتا ہے۔ تاریخ کا پہیہ خواہشات پر نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر سفر کرتا ہے اور حقائق ایک یکسر مختلف منظر کی عکاسی کر رہے ہیں
105