آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
مسلم لیگ ن کے رہنماء اور سابق امیدوار این اے 59اور پی پی10قمرالسلام راجہ کو بالا آخر ضمانت پر رہائی مل گئی حلقہ احباب کے کا ان سے ملنے اور مبارکباد دینے کا ایک سلسلہ شروع ہے قمرالسلام راجہ نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز ق لیگ کے پلیٹ فارم سے کیا تھا اوراس وقت کے پی پی5منتخب ہوئے بعد ازاں انہوں نے مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور ایک بار پھر پنجاب میں سب سے زیادہ ووٹیں لینے کا ریکارڈ قائم کردیا،لیکن بدقسمتی سے ان کا ساتھ چوہدری نثار علی خان کا تھا جنہوں نے بذات خود تو شائید نہ لیکن ان کے کار خاصوں نے پورے چار سال تک ان کومکمل طور پر سائیڈ لائن لگا کر رکھا کام کے حوالہ سے قمرالسلام راجہ سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ اس وقت حلقہ کی عوام کو وہ کچھ نہ ڈیلیور کر سکے جو ان کو کرنا چاہیے تھا الیکشنوں سے قبل ن لیگ پر جب کڑا وقت شروع ہوا تو اس وقت چوہدری نثار علی خان نے آذاد حثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو اس حلقہ میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اب اس حلقہ میں ن کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہ ہوگا اور کوئی جرات نہیں کرسکے گا کہ وہ چوہدری نثار علی خان کا سامنا کر سکے اور مخالفت کے باوجود کسی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا جا سکے گا اور قمر السلام راجہ کا تو کسی لسٹ میں نام تک نہیں ہوگا ،اور اگر کسی کو ٹکٹ لینا ہوگا تو اس کو ساگری آنا ہوگا کے نعرے کافی زوروں پر تھے لیکن پھر اس حلقہ کی عوام نے دیکھا کہ چار سال تک چوہدری نثار علی خان کے سامنے مکمل باادب با ملاحظہ جیسی کیفیت کا شکار قمراسلام راجہ ایک سیاست دان کی طرح میدان میں کھڑا ہوگیااور نہ صرف مدمقابل کھڑا ہوا بلکہ ن لیگ کو مکمل کندھا فراہم کیا اور پورے ضلع راولپنڈی کی سیٹس کے ٹکٹ بھی قمرالسلام راجہ نے جاری کی چوہدری نثار کاپارٹی پر مکمل کنٹرول کے خوف کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ چوہدری تنویر کے قریبی عزیزسابق ایم پی اے سرفراز افضل نے بھی ٹکٹ کے لیے تک کواپلائی نہ کیا کیونکہ اس وقت چوہدری نثار نے پی پی13سے بھی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے پنڈی پر حکومت کے دعویداروں چوہدری تنویر گروپ نے ٹکٹ کے لیے تک اپلائی کی جرات نہ کی ،پھر حالات بدلے اور پورے ضلع کو ٹکٹ دلوانے والا قمراسلام راجہ کو صاف پانی کیس میں پابند سلاسل کر دیا اور اب وہ تقریبا آٹھ ماہ کے بعد ایک بار پھر آذاد ٖفضا میں سانس لے رہے ہیں اب ان کی سیاست میں کیا حکمت عملی ہو گی اس کا فیصلہ تو یقیناًقمرالسلام نے کرنا ہے لیکن عوام بھی ان کے فیصلے کی منتظر ہے اور انہوں نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ جلد ہی اس حلقہ میں سیاسی حوالہ سے ایک لایحہ عمل سامنے لائیں گے حلقہ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پی پیء10سے چوہدری نثار نے تاحال حلف نہ لیا ہے اور اس حوالہ سے ان کے خلاف ایک رٹ عدالت میں جا چکی ہے اسکے حوالہ سے الیکشن کمیشن نے اپنا موقف عدالت میں جمع کروانا ہے تو دوسری طرف این اے59میں غلام سرورخان پر جعلی ڈگری کے حوالہ سے بھی نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے دونوں صورتوں میں ان کے لیے حلقہ کا میدان کھلا ہوگا جس میں انہوں نے کھیلنا ہے لیکن اب ان کو اپنی پرانی سیاست کے طرز کو تبدیل کرنا ہوگا اور اپنے اور اپنے عوام کے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا ،جہاں ان کے اور پارٹی ساتھ کھڑے ہونے والے ورکرز کو وہ عزت اور مقام دینا ہوگا جس کے لیے وہ جہدو جہد کر رہے تھے اس وقت چیئرمین یوسی بشندوٹ زبیر کیانی ،چیئرمین یوسی لوہدرہ نوید بھٹی ،چیئرمین یوسی بگا شیخاں چوہدری عامر جمشید وائس چیئرمین یوسی غزن آباد طٖفر مغل جیسے ہزاروں کارکنان کو اپنا دست بازو بنانا ہوگا اور حلقہ کی عوام کو اکھٹا کر کے ایک مکمل سیاسی حکمت عملی کا اعلان کرنا ہوگا اب ان کو خوف کے اس خول سے بھی نکلنا ہو گا ،اور ایک جارحانہ طرز سیاست کو اپنانا ہوگا اور اپنے حلقہ کے عوام کو ایک نئی راہ دکھانا ہو گی جس کے لیے عوام نے ان کی غیر موجودگی میں بھی ان کو سپورٹ کیااور بیس ہزار سے زائد ووٹ ان کے بکس میں گئے اب اگر چوہدری نثار کی مسلم لیگ میں واپسی کی کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں اور وہ ایک بار پھر اس حلقہ میں حکمرانی کے خواب دیکھنا شروع کرتے ہیں تو کیا اس حلقہ کی عوام کو ایک بار پھر با ادب با ملا حظہ والے پرانے قمرالسلام سے واسطہ پڑے کا اس کا فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے اور ایک بات تو طے ہے کہ اگر اس بار انہوں نے ایک بار پھر مودبانہ ہونے کے لیے ہاتھ باندھ لیے تو حلقہ سے ان کی سیاست کا ڈھڑن تختہ ہو نے سے کوئی نہیں روک سکے گا اوراس کا سہرا ان کے اپنے سر ہوگا،وگرنہ بقول بہادر شاہ ظفر ،،کہ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں ظفر،،کے اس شہر کے مصداق ان کا سیاسی باب بند ہوجائے گا
152