110

قمرالاسلام راجہ ایک کرب سے گزرے

عاطف افتخار‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
ایک برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا کہ جب آخری دفعہ پنڈی پوسٹ میں علاقائی سیاست پر اظہار خیال کیا تھا پھر انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر عمل کیا لیکن آج بھی منظر نامہ ویسا ہی ہے جنوری2017 کے جلسے میں چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ ایک ایک ووٹ قیمتی ہے اور یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ ان علاقوں میں بھی ترقیاتی کام کرائے جائیں گے جہاں سے انہیں شکست ہوئی۔ لیکن چوہدری صاحب کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کون کہاں ان کا ووٹر ہے۔ انہیں ایک چوہدری، ایک راجہ، ایک ملک، ایک کیانی اور ایک شیخ سے سروکار ہے۔ عام آدمی سے ان کا کوئی رابطہ ہے نہ واسطہ کیونکہ وہ جانتے ہیں ان سے ملنے والا فیض ان کے یہ نمائندے موزوں جگہوں پر تقسیم کرتے رہیں گے اور ترقیاتی کاموں کی بھیک میں لوگ چوہدری صاحب کو اقتدار کی مسند بیٹھاتے رہیں گے۔ لیکن یہ ان کی خام خیالی ہی ہو سکتی ہے اب کی بارعوام میں ایک شعور اجاگر ہو چکا ہے۔ آج عوام یہ سمجھ چکے ہیں کہ گلی، نالی، سڑک، سوئی گیس سب ثانوی چیزیں ہیں اور عزت نفس سب سے مقدم ہے۔ آج عام عوام یہ فیصلے کر لیں کہ اس دفعہ چوہدری صاحب کے بکس سے صرف وہی چوہدری، کیانی، راجہ، ملک اور شیخ کا ووٹ کا نکلنا چاہیے جن کو بقدر بھیک ان کا فیض ملتا رہا ہے
چوہدری صاحب اپنی ذات میں کسی نواز شریف سے کم نہیں ہیں ان میں بھی آمریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ درخواست سنتے نہیں بس حکم صادر کرتے ہیں کیا جمہوری رویے ایسے ہوتے ہیں جیسے چوہدری نثار، نواز شریف اور شہباز شریف ہیں جو اپنی ذات سے باہر کبھی بھی نہ نکل سکے
ہماری علاقائی سیاست میں راجہ قمرالاسلام سا جمہوری شخص نہیں ہے۔ اپنے ہر ووٹر کو جاننا ان پر سوشل میڈیا اور ذاتی حثیت میں مکمل رابطے میں رہنا ان کی ترجیحات میں شامل ہو۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی عوامی نمائندہ الیکشن جیتنے کے بعد بھی اپنے ووٹر کو اس طرح سے میسر رہا ہو جیسے کہ قمرالاسلام۔ لیکن پھر بھی عوام عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ ذاتی حثیت میں ملنے والا ایم پی اے لوگوں کے جائز کام بھی نہ کرا سکا اور اسکے برعکس ساگری کے شیخ ساجد جیسا غیر منتخب شخص نہ صرف با اثر ہے بلکہ ایک قوی تاثر گردش کرتا رہا کہ راولپنڈی میں تمام تر کام چوہدری نثار اور ان معاونین خصوصی کی نظر کرم سے ہو سکتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ایم پی اے قمرالاسلام محض بے بسی کی تصویر ہی نظر آئے۔ میں سلام پیش کرتا ہوں راجہ قمرالاسلام کے صبر اور سیاسی بصیرت کو گزشتہ نو سالوں سے چپ کا روزہ نہ توڑا۔ ایسے میں منیر نیازی کا ایک شعر ان کی نذر
ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو شخص سنتا ہے بول بھی تو سکتا ہے
حالیہ برس میں یہ شعر ہمارے سیاسی منظر نامے میں بہت مقبول ہوا اور ہر ایک نے اپنے خیالات کی ترجمانی کے لیے اس شعر کا سہارا لیا ہے۔ ایم پی قمرالاسلام یقیناً ایک کرب سے گزرے ہیں لیکن چونکہ وہ ایک سیاسی آدمی ہیں۔ آج بھی جذبات پر قابو رکھے ہوئے ہیں اور پورا سچ نہیں بول پا رہے ہیں۔ ورنہ یہ وقت بغاوت کا تھا لیکن بدقسمتی سے آج سیاسی منظر نامہ تضادات سے بھرا پڑا ہے۔ ظالم مظلوم بھی اور حکمران محکوم بھی۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایم پی بے بس ہے ایسا تو کبھی آمریت میں بھی نہیں ہوا ہے۔ چوہدری نثار کا طرز سیاست اس بات کا عکاس ہے کہ ہمارا نظامانتہائی بوسیدہ ہے جہاں سیاسی زینے اور وسیلے ناگزیر ہیں۔ حیرت ہے قمرالاسلام پر کہ وہ بوسیدہ نظام میں پستے رہے لیکن لب کشائی نہ کی۔ لیکن اس سب کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کیا رنہ وہ بہت پہلے یہ نعرہ لگا چکے ہوتے
مجھے ہے حکم اذاں، لا الہٰ الا اللہ
جمہوریت چوہدری نثار کے پاس ہے نہ ہی نواز شریف کے پاس۔ راجہ قمرالاسلام شاید ان چند شخصیات میں سے ہیں کہ جو آزاد حثیت میں الیکشن لڑتے تو زیادہ موزوں و معتبر ٹھہرتے۔ ووٹ قوم کی امانت ہے اور اس امانت کا حق یہی ہے کہ اس کا استعمال وطن عزیز کے وسیع تر مفاد میں کیا جائے۔ ووٹ کو عزت دو سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ووٹر کو عزت دو ورنہ یہ استحصالی نظام قائم رہے گا۔ وسائل، اختیارات اور ملازمتوں کی بندر بانٹ معاونین خصوصی کے خاندان اور چوہدری نثار کے چند آشناوں میں ہوتی رہے گی۔ میرٹ کا قتل ہوتا رہے گا اور غریب سسکتا رہے گا
سیاسی منظر نامہ دوسری جانب بھی حوصلہ افزا نہیں ہے ق لیگ، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے دور حکومت میں نظام سے عوام کو محکوم بنانے والے مفاد پرست پی ٹی آئی کے سیاہ و سفید کے مالک نظر آتے ہیں ایسے میں عمران خان حکومت ملنے کی صورت میں عوام کی داد رسی کے لیے کوئی بہتر نظام متعارف کروا پاتے ہیں یا نہیں یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب بہر حال ایک تجربے کا متقاضی رہے گا۔
آخر پر خراج تحسین پیش کرونگا چیئرمین ساگری یونین کونسل راجہ شہزاد یونس کو جنہوں نے اپنی ذاتی کاوشوں سے ڈہکالہ، ڈہوک میرا اور توپ مانکیالہ والوں کو ایک پختہ سڑک کی صورت میں راستے کا ایک ایسا تحفہ دیا ہے کہ جس کا وجود ہی نہ تھا۔ یہ ایک صدقہ جاریہ ہے اور اللہ کے ہاں اس کا بے شمار اجر ہے ان تمام لوگوں کیلیے جنہوں اس عظیم مقصد کے لیے اپنی زمینیں وقف کیں ہیں۔ یہ خواب جو اسے علاقے کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت شرمندہ تعبیر کیا اس بات کی عکاسی ہے کہ سیاسی بنیادوں سے بالاتر اتحاد میں برکت ہے اور کسی بھی علاقہ کے مکین باہمی اتفاق و اتحاد سے اپنے علاقوں کو بحریہ اور ڈی ایچ کی شکل دے سکتے ہیں ضرورت ہے صرف قربانی کی اور دنیاوی لالچ سے اجتناب کی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں