اللہ تعالیٰ خالق کائنات مالک دوجہاں ہے دنیا بھرمیں جوکچھ بھی ہورہا ہے وہ اس سے باخبرہے،سننے وال ااور جاننے والا ہے اللہ تعالیٰ کے احکامات میں راز، حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے جو ہم دیکھ یا سمجھ رہے ہوتے ہیں نتیجہ اس کے برخلاف بھی ظاہرہوتا ہے لیکن بعض اوقات دوسرے لوگوں کو متوجہ کرنے، تعلیم وتربیت کیلئے، لوگوں کو سبق حاصل کرکے اس پر عمل پیرا ہونے کیلئے اور لوگوں کو تابع داری‘ فرمانبرداری‘ اطاعت گزاری اور تسلیم کرنے کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کو احکامات دیکر بھیجا جاتا ہے اور بعض اوقات انبیاء کرام علیہم السلام سے وہ کام بھی اللہ ظاہر فرما دیتا ہے جس کو معجزہ کہاجاتا ہے اور عام آدمی اس کو کرنے کی طاقت وسکت نہیں رکھتا اور نا ہی وہ بات کی گہرائی کو سمجھ سکتا ہے لیکن کائنات میں انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ سے بے شمار مقامات پر اللہ نے معجزات کو ظاہرفرمایا جن کی مثالیں بھی آج کے دور میں دی جاتی ہیں اور ان انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت کوبھی ادا کر کے لوگ تقوی کے ساتھ ساتھ اجروثواب بھی حاصل کر رہے ہیں ان میں سے ایک قربانی بھی ہے قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک عمل اور اللہ کے حکم کی تکمیل کے ذریعہ سے لاجواب بے مثال جذبہ کی ایک مثال ہے کا ئنات نے اس سے پہلے ایسا منظرہرگزنا دیکھا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر امتحانات آئے آپ علیہ السلام ثابت قدم رہے اس پر اللہ نے انعامات سے نوازا ان امتحانات میں سے ایک امتحان یہ بھی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کیاجائے یہ امتحان لینے والے خود اللہ تعالیٰ ہیں ان آزمائشوں امتحانات،کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام ومرتبہ،شان وشوکت عزت وعظمت کو مزید بلندکرکہ اور نمایاں مقام عطاء فرمایا مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کے ادوار میں مختلف احکامات کی صورتیں ہوتی تھی کچھ میں ردوبدل بھی ہوتا ان میں سے ایک حکم یہ بھی تھا کہ قربانی کسی اونچی جگہ پر رکھ دی جاتی آسمانی آگ آکر اسے جلا ڈالتی یہی قبولیت کی علامت بھی تھی اس وقت بھی رب العالمین کو جانور خون گوشت اور خون کی ضرورت نہیں تھی اب بھی نہیں ہے اسی لئے اللہ فرماتے ہیں اللہ کے ہاں گوشت، خون، نہیں پہنچتا لیکن تقوی پہنچتا ہے اللہ کو یہ چیزیں نہیں بلکہ اخلاص، دلی جذبہ اتباع مقصود ہے حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ اپنے نبی بیٹے حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کو اپنے مبارک ہاتھوں سے ذبح کررہے ہیں آپ علیہ السلام نے اپنے اس خواب جو حقیقت میں اللہ کا حکم تھا کی تکمیل کیلئے چل پڑے یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کوئی بھی شخص خواب کی بنا پر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا نا ہی شریعت کی طرف سے اجازت ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا اس لئے کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے خواب بھی وحی کے حکم میں آتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ہاتھوں اپنے بیٹے کوقربانی کا عمل خواب میں دیکھا یا جوکہ انتہائی مشکل اور کٹھن مراحل کاکام ہے کہ انسان اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو قربان کردیا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا تذکرہ کیا اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی قربانی‘ آزما ئش اور اپنے لخت جگرکوقربان کرنے کے جذبہ کا خصوصی تذکرہ فرمایا اللہ رب العزت نے جنت سے قربانی کا جانور بھیج کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کوبچا لیا آپﷺ بھی اونٹ اور مینڈھوں کی قربانی دیاکرتے تھے ہجرت کے بعد نبی اکرم شفیع اعظم ﷺ نے ہرسال قربانی کا اہتمام کیا
قربانی کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی اکرم شفیع اعظم ﷺ نے سوال عرض کیا تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ اے اللہ کہ رسول ہمیں کیا ملتا ہے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جانور کہ ہربال کہ بدلے نیکی صحابہ کرام نے عرض کیاکہ بھیڑ اور دنبہ تو آپ نے فرمایا اس کے بھی ہر بال کے بدلے میں نیکی اب یہ قربانی قرآن و حدیث سے ثابت ہے نبی کریم روف الرحیم ﷺبھی قربانی کرتے رہے اور مسلمان بھی جذبہ وشوق سیاس اجروثواب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس قربانی میں بھی رشتہ داروں اور غریب مفلس لوگوں کوحصہ دار بنا دیا کہ جو غریب پورا سال گوشت کوترستے رہے جن کے بچے گوشت کی فرمائش کرتے لیکن وہ حالات سے مجبور بے بسی کی تصویر بنے رہے ان کو بھی بغیر پیسوں کہ بغیر اجرت کہ گوشت اس دن کھانے کو ملتا ہے یہ اسلام کا حکم ہے اسلام کا حسن طرز ہے کہ ہر جگہ ہر لمحہ غریب مفلس یتمی‘ مساکین کاخیال رکھتاکسی ناکسی طریقہ سے ان کی پرورش اور ضروریات پوری کرنے کا مالداد لوگوں کو درس دیتاہے لیکن کچھ عقل سے فارغ دین دشمن عناصر اس قربانی پر بھی پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ قربانی سے بہتر کسی کو مالی مدد کر دیں انکو یہ نہیں پتہ کہ اسلام کا اپنا حکم‘ وجود اور مقام ومرتبہ ہے قربانی کاحکم ہے توقربانی کرنی ہے اس کے بدلہ میں پیسے یا کچھ اور نہیں دیا جاسکتا یہ کوئی اعتراض کیوں نہیں کرتا کہ مہنگے فون، مہنگی گاڑی، منگے گھر زمین لینے کی بجائے کسی غریب کی مدد کریں لیکن جب اسلامی تعلیمات پر عمل کادرس دیاجائے تو اعترضات کی بھرمار شروع کردیتے ہیں یہ بھی قدرت کا قانون دیکھیں کہ قربانی کے جانوروں کا عید الاضحیٰٰ کے علاوہ پورا سال حلال جانور ذبح ہوتے ہیں مسلمان شوق سے کھاتے ہیں اور پھر قربانی کہ موقع پر لاکھوں جانور اللہ کہ نام پر ذبح کردیئے جاتے ہیں اس کے باوجود حلال جانوروں میں کمی نہیں ہوتی جبکہ حلال جانور پیدا بھی ایک یا دو کرکے پیدا ہوتے ہیں جبکہ اسکے مد مقابل حرام جانور کا گوشت فروخت بھی نہیں کیاجاتااور وہ حرام جانور بچے بھی 7یا 8 پیدا ہوتے ہیں اس کے باوجود دنیا میں حرام جانوروں کی بجائے حلال جانور کثرت سے پائے جاتے ہیں یہ قدرت کا خاموش پیغام ہے جو نا سمجھ دین دشمن اورلبرل قسم کے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا۔
159