165

قربانی احکام و مسائل

عام طور پر دیکھاگیا ہے قربانی کاشوق ہرمسلمان کوہوتاہے اس جذبہ سے ہرمسلم دل دھڑکتاہے کہ اسے بھی اللہ توفیق دے تووہ بھی اس قربانی جیسے عظیم عمل میں عملی طورپرشامل ہوجبکہ اس جذبہ کیساتھ ساتھ جو عمل ہم کررہے ہیں اس کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے قربانی آزاد شخص،مسلمان،بالغ،مقیم،صاحب نصاب،پر واجب ہے میاں بیوی اگر دونوں صاحب نصاب ہیں تو دونوں پر الگ الگ قربانی واجب ھے ایک ھی حصہ دونوں کی طرف سے کافی نہیں ہے عید الضحیٰ کے ایام میں کسی بھی وقت 10ذالحجہ کی صبح صادق سے لیکر 12 ذالحجہ کی مغرب تک صاحب نصاب پرقربانی واجب ہے قربانی کیلئے صاحب نصاب کا یہ مطلب ہے کہ کسی شخص کے پاس ضرورت سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا مال یاسامان موجود ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو اور قربانی کیلئے صاحب نصاب کے لئے سال کا گزرنابھی شرط نہیں جیساکہ زکوٰۃ میں شرط ھے اور مال کا بڑھنا بھی شرط نہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺنے ارشادفرمایا جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ھوجائے توجب کسی کاقربانی دینے کا ارادہ ہو تو وہ ناخن بال وغیرہ ناکاٹے یہاں تک کہ وہ قربانی دے دے اسی حدیث کی روشنی میں بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ جوشخص قربانی دینے کی قدرت نا رکھتا ہو وہ بھی قربانی والوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے ناخن بال وغیرہ کاٹنے سے باز رہے تو امید ہے اللہ اسے بھی اجرعطاء فرمائیں گے صاحب نصاب نے اگر قربانی والا جانور لیا بعد میں اسے تبدیل کرنا چاھے تودوسرے جانور کی قربانی کرسکتا ہے مگریہ خیال رکھاجائے کہ دوسرا جانور پہلے جانور کی قیمت سے زائدھو ناچاہیے اگرکسی نے پہلے خریدے گئے جانورکی قیمت سے کم قیمت پردوسرا جانورخریدا تو بقیہ رقم صدقہ کرنا ضروری ہے لیکن اگر کسی پرقربانی واجب نہیں تھی تو مخصوص جانور تبدیل کرنا جائز نہیں قربانی کے بڑے جانور جیسے گائے،بیل،بھینس،اونٹ وغیرہ میں ایک سے لیکر سات حصے تک کئے جاسکتے ہیں لیکن سات حصوں سے زائد نہیں کئے جاسکتے اگر بڑے جانور میں سات سے کم افراد شامل ھوتے ہیں تو یہ جائز ہے یعنی کسی بڑے جانور میں چار افراد،پانچ افراد بھی شامل ھوں توھوسکتے ہیں کوئی حرج نہیں اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی طرف سے دوحصے بھی ڈالتاہے تویہ بھی جائزہے قربانی کیلئے اونٹ،گائے،بیل،بھینس،بھیڑ،بکری،دنبہ ان میں سے ہرایک کی قربانی درست ہے خواہ نر ہو یا مادہ،انکی عمرکے حوالہ سے تفصیل یوں ہے اونٹ کی عمر کم از کم پانچ سال،گائے بیل وغیرہ کی دو سال اور بھیڑ بکری کی ایک سال ھونا ضروری ھے البتہ اگر بھیڑ بکری چھ ماہ کے ہوں لیکن تندرست موٹے تازہ ہوں جو دیکھنے میں بھی سال کہ لگتے ہوں تو انکی قربانی بھی جائزہے چھ ماہ سے کم جائز نہیں بڑے جانور میں سات لوگ شامل ہوسکتے ہیں عیب دار جانور کی قربانی درست نہیں ایسا جانور جس کے سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں،جس بھیڑ بکری کی دم پیدائشی نا ہو، ایسا جانور جواندھا ھو،ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو ایسالنگڑاجوچل کر قربان گاہ تک نا جاسکے،ایسا بیمارجس کی بیماری ظاہرہو، جس کی بینائی جاتی رہی ہو، جس جانور کے دانت ناہوں جس سے وہ چارہ کھا سکے،ایساجانور جس کاناک،تھن، وغیرہ کٹے ہوں، ایساجانور جس کی غذا نجاست وگندگی ھو، ایسالاغرجس کی ہڈی میں گودا نارہاہو،ایساجانورجس کاپاوں کٹ گیاہو، ایسے جانورکی قربانی نہیں ھوگی قربانی کیلئے
ضروری ھے کہ وہ جانور عیب سے پاک ھو،البتہ کچھ ایسے جانور جن کی قربانی کرتے وقت کچھ عیب آگیا جیساکہ جانور کوذبح کیلئے لیکرجارہے تھے گراتے وقت اسکی ٹانگ ٹوٹ گئی، یاایسے ھی چھری چلاتے وقت اس جانور کی آنکھ میں لگ گئی،اس صورت میں اسکی قربانی درست ھوگی اسی طرح اگرکسی شخص نے قربانی کا جانور خریدا پھر ذبح کیلئے لانے سے قبل ایسا عیب پیدا ھو گیاجس کے ھوتے ہوئے اس کی قربانی جائز نہیں تو اگرتوکوئی مالدار ھے تواسے چاہیے کہ بے عیب جانور خریدکرقربانی کرے اور اگر کوئی غریب فقیر ھے اسے دوسراجانور خریدنے کی طاقت نا ھوتووہ قربانی کرسکتا ہے لیکن اگر سہولت ھو تو پھرناکرے لیکن اگرکسی نے قربانی کی نذر مانی پھراس جانورمیں عیب پیدا ھوگیاتواب اسے دوسرا جانور خریدکر قربانی دینی پڑے گی اسی طرح جب جانورذبح کرناھوتاہے تواس پر تکبیر کہنی ضروری ھے اگر قصائی ایک ساتھ کئی جانور زبح کررہاہے تو پھر ھرجانور پرعلیحدہ سے تکبیر کہنی ضروری ھے ایک تکبیر سب کیلئے کافی نہیں اگر کسی نے ایک تکبیر پڑھ کر ایک ساتھ بہت سارے جانور زبح کردئیے تو جس پر تکبیر پڑھی گئی اس جانور کی قربانی ھوجائیگی باقی کی نہیں قربانی کے گوشت میں تین حصے کرے ایک حصہ اپنے لئے دوسراحصہ رشتہ داروں کیلئے تیسراحصہ فقراء مساکین کودیدے،قربانی کی کھال کسی کوخیرات کردے یابیچ کراس کی قیمت فقراء کوتقسیم کردے البتہ مدارس کو دیں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ احیاء العلوم سب سے بہترہے،قربانی کی کھال اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتاہے جیسے مصلاء بنالیا وغیرہ، کھال کی قیمت مسجدکی مرمت،امام،موذن کی تنخواہ میں نہیں دی جاسکتی ناہی رفاعی اداروں کی تعمیر میں دی جاسکتی ہے،قربانی کی کھال قصائی کوبطور اجرت دینا جائز نہیں،قربانی کی کھال اگر چھن جائے یاچوری ھوجائے توکھال کی قیمت صدقہ کردینی چاہیے،اگرکسی نے قربانی نہیں کی اب اس قربانی کی قیمت صدقہ کردے اگرجانورخریدلیا ھے تووہی جانور صدقہ کردے اگرکسی شخص کوبغیراجازت قربانی میں شامل کیاتوکسی کی بھی قربانی نہیں ھوگی،اسی طرح اگر کسی بھی حصہ دار نے گوشت کی لالچ میں شریک ھوا توکسی کی بھی قربانی درست نہیں ھوگی،قربانی کے جانور کے بال کاٹنا دودھ دوھنا درست نہیں اگرکسی نے ایساکرلیا تواسے صدقہ کرے اگر بیچ دیا تواس کی رقم صدقہ کرنا واجب ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں