رواں ہفتے اسلام آباد کے ایک مشہور و معروف ہوٹل میں ’’سالانہ میڈیاکانفرنس ‘‘کے عنوان سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیایہ کانفرنس ایک غیر سرکاری تنظیم’’روزن‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی کانفرنس میں ملک بھر سے دنیائے صحافت کے نام بڑے ناموں کو بھی مدعو کیا گیا تھا جنمیں سینئر اینکر پرسن مظہر عباس،محمد ضیاء الدین ،مر تضی سولنگی ،غازی صلاح الدین ، فرح ضیاء ،جامی چانڈیو، نگہت داد، عدنان رحمت،داکٹر بشیر میمن، عافیہ سلیم، حسن بلال زیدی،اسد بیگ، ،صدف خان، سینئر اینکر پرسن مطیع اللہ جان، صفیع اللہ گل، عبد الستار خان، پی ٹی وی انگلش کے ہیڈ اویس تو حید ،وسعت اللہ خان،اینکر پرسن فہیم صدیقی اور فرزانہ علی سمیت پاکستان بھر سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی رپورٹرز نے کانفرنس میں شرکت کی خوش قسمتی سے اس کانفرنس میں کلرسیداں کی نمائندگی پنڈی پوسٹ اور پوٹھوا رلنک ڈاٹ کام نے کی جن میں چیف ایڈیٹر پنڈ ی پوسٹ عبدا لخطیب چوہدری،آصف شاہ،عاقب چوہدری،سینئر صحافی سلیم شہزاد،عمران ہاشمی اور مجھ نا چیز کو بھی شرکت کا موقع ملا ۔کانفرنس کے انعقاد کا مقصد صحافتی ضابط اخلاقتھا کہ میڈیا اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ان امور کا خیال رکھتا ہے جو اس سے رکھنا چاہیے؟کہیں میڈیا وہ تو نہیں کر رہا جو اس کے فرائض سے ہٹ کے ہیں ؟کیا میڈیا میں خواتین کو اتنی ہی اہمیت دی جاتی ہے جتنی کہ مرد حضرات کو؟کیا میڈیا ضابطہ اخلاق کی پوری طرح پاسداری کر رہا ہے ؟ان سب باتوں کے جواب کو تلاش کرنے اور ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے یہ کانفرنس کال کی گئی جس کی میزبانی ’’روزن ‘‘ نے کی ۔اس دو روزہ کانفرنس میں کل چھ سیشن ہوئے جس میں منجھے ہوئے صحافیوں کے پینلز نے اپنے تجربات اور عوامی مفاد کی صحافت پر لیکچرز دئیے اور فرداً فرداً سوالات کے مواقع بھی فراہم کیے گئے پاکستان بھر سے آئے الیکٹرنک میڈیا سے وابستہ افرد کی سب سے بڑی شکایت جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ میڈیا مالکان ریٹنگ کی خاطر ،دوسرے چینلز سے بازی لے جانے کی خاطر رپورٹرز کی زندگیاں اور ان کی عزتیں داؤ پر لگا دیتے ہیں انہیں اس بات سے کوئی پر واہ نہیں کہ رپورٹر کن حالات سے گزر رہا ہے انہوں نے صرف اور صرف آرڈر دینا ہے وہ آرڈڑ چاہے صحافت کے زمرے میں آتا ہو یا نہ۔اگر کوئی چینل کسی چھوٹی سی خبر میں بازی لے بھی جاتا ہے تو دوسرے چینل کے میڈیا مالکان اور نیوز روم میں بیٹھے لوگ ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں ایک نجی ٹی وی چینل کی بیورو چیف جو کہ پشاور سے آئی ہوئی تھیں انہوں نے بتایا کہاایک بار شمالی وزیر ستان میں پاک آرمی کی جانب سے ہوائی اٹیک کیا گیا اور خبر چلی کہ وہاں اٹیک میں طالبان کے اتنے ساتھی مارے گئے اور دوسرے دن مجھے انجان نمبر سے کال آئی کہ آپ نے جتنے لوگ خبر میں مار دئیے ہیں اتنی تو کل تعداد نہیں ہماری ۔ایک اور خاتون صحافی ’’انیلہ‘‘ جن کا تعلق پشاور سے ہی تھا ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹر کی حثیت سے کام کر رہی ہیں انہوں نے دوران کانفرنس بتایا کہ مجھے ایک طالبان کمانڈر کا انٹرویو کرنے کے لیے کہا گیا یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ میں ایک خاتون صحافی ہوں اس باجود مجھے بار بار وہ انٹرویو کرنے کے لیے کہا گیا یہ بات کسی پاکستانی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ شمالی وزیر ستان میں جانا اور وہاں جاکر ایک ملک دشمن سے انٹرویو لینا کس حد تک خطر ناک ہے انہوں نے بتایا کہ وہ انٹرویو لینے گئیں مگر برقعے میں انہوں نے وہ انٹرویو کیا اس بات سے میں اور آپ سب اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میڈیا ہاؤسز میں بیٹھے لوگوں کو کسی کی جان کی کوئی پرواہ نہیں وہ اس بات کے لیے کس حد تک گر جاتے ہیں اس بات سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں سینئر اینکر پرسن مطیع اللہ جان نے کہا کہ ہم جس ضابطہ اخلاق کی بات کررہے ہیں وہ ضابطہ تو ہمیں ماں کی گود سے ہی مل گیا تھا مگر افسوس کہ ہم نے اس ضابطے کو نہ سمجھا اور نہ اس پر عمل کیا اس میں کچھ غلطیاں ہماری بھی ہیں ان کا کہنا تھا کہ ضابطہ اخلاق تو معاشرہ بناتا ہے معاشرے لوگ بناتے ہیں ہم جیسے میڈیا کے لوگ دوسروں کی برائیاں منظر عام پر لاتے ہیں کبھی خود کا بھی تو احتساب کر یں کہ ہم کیا کر رہے ہیں ؟ اور جو کر رہے وہ ٹھیک ہے یا نہیں؟انہوں نے کہا کہ چھ چھ ماہ تک تو میڈیا کے لوگ تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں اس بات کو تو کبھی منظر عام پر نہیں لایا گیا ۔سینئر صحافی اور اینکر پرسن عبد الستار خان نے کہا کہ میرے خیال میں ہمارا اس ٹیبل پر اس بات کے لیے بیٹھنا کہ ہم کسی کوئی ایک ضابطہ طے کر سکیں یہ سب بے مقصد ہے کیوں کہ ہمارا معاشرہ ہمارے لوگ تو صرف چیخ و پکار دکھنا چاہتے ہیں وہ ٹاک شو میں بیٹھے لوگوں کو لڑائی جھگڑا کرتے دیکھنا پسند کرتے ہیں وہ پاکستان کی تاریخ نہ سننا چاہتے ہیں اور نہ دیکھنا چاہتے ہیں میرے خیال میں میڈیا ہاؤسز کا بھی اس میں کوئی قصور نہیں کیونکہ ہمارے لوگ ناچ گانا دیکھنا چاہتے ہیں اگر کوئی سنجیدہ پروگرام لگا ہوتو ایک سیکنڈ میں چینل بدل دیا جاتا ہے ہمارا معاشہ اب ان سب چیزوں کا عادی ہو چکا ہے اس بات کی بغیر پرواہ کیے کہ معاشرے پر یہ سب کیسے اثر انداز ہو گا۔میڈیا میں خواتین کے مخصوص کردار سے پر بات کرتے ہوئے سینئر صحافی مائرہ عمران نے کہا کہ ابھی چند دن پہلے لاہور پریس کلب کے ہونے والے انتخابا ت میں دس میں سے دو سیٹیں خواتین کے لیے مختص کر دی گئیں ہیں جن پر ہر سال خواتین ہی الیکشن لڑ سکتی ہیں جس کے جواب میں ایک صحافی خاتون نے کہا کہ دو کیوں؟کیا کسی فیلڈ میں خواتین کا کردار مر د حضرات سے کم ہے ؟میرے خیال میں اگر دس سیٹوں پر انتخابات ہوتے ہیں تو دس کی دس خواتین بھی لڑ سکتی ہیں خواتین کو مکمل پینل بھی الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے میں اس بات کو ہر گز تسلیم نہیں کرتی۔’’روزن ‘‘کی ڈائریکٹر شبانہ عارف نے کہا کہ میرے خیال میں خواتین کے لیے صبح نو بجے سے لیکر دس بجے کا جو سلاٹ مختص کیا گیا ہے یہ ٹائم ایک مخصوص طبقے یا افراد کے لیے ہے جن کے گھروں میں کام کرنے والے موجود ہوتے ہیں اور وہ کود آرام سے بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھتی ہیں ایک عام گاؤں کی خواتین کبھی بھی اس ٹائم میں فری نہیں ہوتیں نہ ہی وہ اس ٹائم پر ٹی وی دیکھتی ہیں کیونکہ یہ ٹائم گھر وں میں کام کاج ہے اور گاؤں کی خواتین تو اس وقت کھیتوں میں ہوتی ہیں اس دوران یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ تما نجی ٹی وی چینلز 24گھنٹے میں ایک گھنٹہ ایسا ہو جس میں پاکستان کی تاریخ دکھائی جائے ،پاکستان کا تاجر اس کے مسائل دکھائے جائیں،پاکستان کا کسان دکھایا جائے اس کے مسائل سنے جائیں ۔شبانہ عارف نے کانفرنس کے آخر میں تما م حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا میں اور میری ٹیم پاکستان کے 45اضلاع کا دورہ کرے گی اور ہم آپ کے پاس آکر آپ کے مسائل سنیں گے اور ان کو ایک پیج کی شکل دے کر میڈیا مالکان اور پیمرا کے سامنے رکھیں گے اور اس بات کا مطالبہ کریں گے کہ پیمرا اپنے ضابطے میں ان باتوں کو بالخصو ص خیال رکھے کیونکہ یہ وہ مسائل ہیں جو ایک عام رپورٹر کو درپیش مسائل ہیں جن کی وجہ سے آپ کے ٹی وی چینلز چلتے ہیں جس میں ان کا بنیادی کردار ہے ۔آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ ایسی میڈیا کانفرنسز بجائے کہ ایک غیر سرکاری تنظیم منعقد کروائے یہ تقریبات ان تما م میڈیا ہاؤسز میں ہوں جن سے متعلق یہ مسائل ہیں تاکہ ان مسائل کو حل کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔{jcomments on}