پروفیسر محمد حسین/کائنات کا ذرہ ذرہ نظام قدرت کے تحت باقاعدگی کے ساتھ اپنے اپنے کام کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہا ہے آسمان سورج چاند ستاروں کو دیکھو بغیر سہارے کے قائم ہیں سورج چاند انہی منزلوں پر گردش کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں سورج کو یہ اختیار نہیں کہ چاند تک پہنچ سکے اور نہ ہی رات کو یہ طاقت ہے کہ دن سے پہلے آگے بڑھ سکے پہاڑ کو دیکھو کامل سکون کے ساتھ اللہ کی بڑی طاقت و قوت کے خوف سے اس طرح خاموش ہے جس طرح ایک خادم اپنے آقا کے ڈر اور رعب کے مارے حرکت کرنا تو درکنار سانس بھی نہیں لے سکتاسمندر کو دیکھو کبھی مد ہے تو کبھی جزر ہے کبھی طوفان اور طلاطم کی ہیبت ناک آوازوں سے قیامت برپا ہو جیسے لیکن سمندر کا یہ جوش و خروش ساحل تک ہی محدود ہے کائنات کے یہ سب کام اللہ کے حکم کی تعمیل میں ہیں جو ان سب کو پیدا کرنے والا ہے پس اے غافل انسان کیا تجھ کو یہ معلوم نہیں قدرت کا یہ نظام کس کی خاطر ہے؟اپنی ذات سے باہر نکل آنکھ کھول دیکھ تو ہی ہے وہ حسین جو اپنے خالق کو باقی تمام مخلوق سے پیارا ہے باقی سب مخلوق تیری غلام ہے جب تک انسان اپنی ذات میں سے باہر نہیں نکلے گا اور اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتا نہیں چھوڑے گا تب تک نہ وہ اپنے اوپر اللہ کے انعامات کا مشاہدہ کر سکے گا نہ اس کی محبت کو سمجھ پائے گا پورا کائنات کو اللہ نے انسان کی خدمت گزاری میں مصروف کر رکھا ہے لیکن اکثر اس بات سے غافل ہیں پانی ہوا سورج چاند ستارے دن رات ہر چیز انسان کی خدمت کرنے میں مصروف ہے انسان جب مشاہدہ کرتا ہے تو یہ سوچتا ہے کہ سمندر سورج زمین وغیرہ ان سب کے لیے وہ کیا کرتا ہے تو وہ یہ بات جان لیتا ہے کہ وہ ان میں سے کسی کے لیے کچھ بھی نہیں کرتا بلکہ وہ سب اسے روشنی پھل سبزیاں اناج اور زندگی کی تمام ضرورتیں فراہم کر رہے ہیں تفکر کرنے والا یہ سوچتا ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اللہ نے باقی تمام مخلوق کو انسان کا غلام بنا دیا ہے پھر وہ یہ بات جان لیتا ہے کہ جب کوئی کسی پر اتنے انعامات اور مہربانیاں کرتا ہے تو اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ اس کو اپنا دوست بناتا چاہتا ہے غورو فکر کرنے سے انسان جب اپنے اوپر رب کے انعامات کا مشاہدہ کرتا ہے تو خالق کائنات کے لیے اس کی محبت عشق کی حدوں کو چھونے لگتی ہے انسان اس کو دوست رکھتا ہے جس نے اس کے ساتھ نیکی کا سلوک کیا ہو یہ ایک فطری بات ہے جو کوشش کے باوجود بدلی نہیں جاسکتی انسان پر اللہ کی بے شمار نعمتوں کے شکرانے پر اللہ کی فرمانبرداری لازم ہے حدیث پاک میں ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے ایک ماں سے ستر گناہ زیادہ محبت کرتا ہے اور جو یہ بات سمجھ جاتے ہیں ا ن کے لیے اللہ ہی کافی ہوتا ہے پھر وہ کسی دوسری طرف نہیں دیکھتے اللہ اتنی محبت کرتا ہے کہ جتنا ایک انسان سے کر ہی نہیں سکتا انسان کو اپنے رب کریم کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے یہ کائنات جس میں ایک ترتیب و تسلسل ہے جسے رب کریم نے کفیل نہیں حق پیدا فرمایا ہے اسے اپنی ذات اسماء و صفات کو پہچاننے کا ذریعہ بنایا ہے ان میں اگر انسان مکمل یکسوئی اور خلوص دل سے بصیر ت کی نظر ڈالے تو اپنے رب کی ذات صفات و حدانیت کو صحیح معنوں میں پہچان لے عرفان حاصل ہو جائے اس خوبصورت کا ئنات کی ہر چیز میں اگر تفکر کی نظر ڈالی جائے تو یہ ہر لمہ مالک الملک کی بندگی کی طرف توجہ دلاتی نظر آئیں گی اللہ نے انسان کو اپنی پہچان اور بندگی کے لیے پیدا فرمایا اگر ہم آسمان جیسی بڑی مخلوق پر بصیرت کی نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ یہ کتنی وسعت کے ساتھ پھیلا ہوا ہے اور بغیر ستون ہے تفکر کرنے والے بے ساختہ کہے گا آسمان اتنا بڑا ہے تو اس کو بنانے والی ذات کتنی بڑی ہو گی اللہ اکبر اتنی بڑی ذات اللہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم اسے غافل ہیں اور سورج کو دیکھ جو زمین سے کئی گنا بڑا ہے اور اللہ نے اسے بغیر سہارے قائم کر رکھا ہے اتنا بلند کہ جہاں بھی ہم جائیں ہمارے ساتھ چلتا ہے اور زمین بھی اتنی وسیع ہے کہ چلتے جائیں لیکن ہم اس کے کناروں تک نہیں پہنچ سکتے تو اتنی بڑی طاقت کو تفکر کرنے والا جب پہچان جائے تو اس کی بندگی کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہو گا انسان مدہوش ہونے لگتا ہے اس کے جلال و جمال میں کھونے لگتا ہے وہ قادر ہے ہرچیز پر غالب ہے حقیقی بادشاہ ہے جدھر بھی دیکھو اسی کا جلال و جمال ہے پھر ایک مقام ایسا ہی آجاتا ہے کہ انسان خود کو بھول جاتا ہے اس کی نظر میں فقط اللہ کی ذات ہر طرف ہوتی ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے اللہ تعالیٰ کشادگی اور سمائی والا ہے اور بڑے علم والاہے ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جتنی چیزیں زمین میں ہیں سب اللہ تعالیٰ نے تمہارے زیر فرمان کر رکھی ہیں اور کشتیاں بھی جو اس کے حکم سے دریا میں چلتی ہیں اور آسمان کو تھامے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے مگر اس کے حکم سے بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر نہایت شفقت کرنے ولامہربان ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ سورج اور چاند کو تمہارے لیے کام میں لگا دیا جو برابر چل رہے ہیں دونوں اور رات اور دن کو بھی تمہاری خاطر کام میں لگا دیا تفکر کرنے سے ہمیں حق تعالیٰ کی ذات و صفات کو پہچان کر ایسی بندگی نصیب ہوتی ہے جو بغیر کسی غرض کے ر کی تعریفیں بے خود جاری رہتی ہیں آنکھوں سے اور زبان اور دل سے اس کا ذکر خود بخود ہی ہوتا جاتا ہے اور ہمیں رب کائنات کی دوستی نصیب ہو جاتی ہے مثال کے طور پر کوئی انسان جسے ہم نہیں جانتے اسے ہماری دوستی اتنی مضبوط نہیں ہو گی اور جب ہم اسے صحیح طور پر جان لیتے ہیں اوراس کی خوبیوں سے واقف ہو جاتے ہیں تو اس کی تعریف بھی کرتے ہیں جس سے وہ خوش ہوتا ہے او اس کو اپنا دوست بھی بنانا چاہتے ہیں پھر ایک تعلق قائم ہو کر وہ ہمارا دوست بن جاتا ہے اسی طرح جب ہم کائنات اور خود پر غور کر کے رب کی ذات کو پہچان لیتے ہیں اور اس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں تو وہ بھی خوش ہو تا ہے اور ہمیں اپنے دوستوں میں شامل کر لیتا ہے وہ تو قریب ہے ہی بلکہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے ہم بھی اس کے قریب سے قریب تر ہو جاتے ہیں
288