جمہوریت ایک خوبصورت طرز حکومت و نظام ضرور ہے لیکن پاکستان میں اس نام کو صرف حصول اقتدار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہماری غربت اور سیاسی مداری دنیا میں تماشا بن چکی ہے فری آٹے کے نام پر غریب عوام کو اس ماہ مقدس میں جس طرح ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے یہ دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھا کارنامہ ہے۔عالمی انسانی منشور کے لحاظ سے معیاری خوراک کی بروقت فراہمی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ مگر بد قسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں آج معاشی کسمپرسی کے باعث لاکھوں لوگ غذائی قلت کا شکارہیں۔ جس سے ناصرف سالانہ سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں بلکہ ذہنی و جسمانی لاغر انسانوں کا جم غفیر الگ سے اکٹھا ہو رہا ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت مختلف پالیسیاں اور سکیمیں تو بنا رہی ہے لیکن بد قسمتی سے ان کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پا رہے۔ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر رمضان مفت آٹا سکیم شروع کی ہے۔ 53 ارب روپے کی سبسڈی سے عوام میں چار کروڑ 70 لاکھ آٹے کے تھیلے مفت تقسیم کیے جائیں گے۔جس کے لیے پورا پورا دن روزے کی حالت میں حوا کی بیٹیوں اور ضعیف العمر بزرگوں کو لائنوں میں کھڑا کر کے شام کو خالی ہاتھ لوٹا دیا جاتا ہے یہ تذلیل آخر کب تک ایسے ہوتی رہے گی کیوں نہیں ہمارے حکام بالا اس بات پر سوچتے غریب کو کیوں نہیں روٹی سے آگے سوچنے کا موقع دیا جاتا۔ بے شمار ایسے لوگ ہیں جن کے شناختی کارڈ سکین کر کے خالی ہاتھ بھیج دیا جاتا ہے کہ آپ کے نام پر آ ٹا نہیں آیا آپ ایک ہفتے بعد آئیں سادہ لوح لوگوں کی انٹری کر کے یہ آٹے کے تھیلے کدر جا رہے ہیں پروگرام کے شروع میں پرانے شناختی کارڈ پر مفت آٹے کی فراہمی نہ تھی اس کے لیے نئے سمارٹ کارڈ والے شہریوں کو مفت آٹا دیا جاتا تھا جبکہ دو تہائی لوگ پرانے شناختی کارڈ خاص طور پر بزرگ شہریوں کے پاس پرانے شناختی کارڈ تھے ان پر یہ مفت آٹے کی سہولت موجود نہ تھی جس پر غریب لوگوں نے سمارٹ کارڈ کیلئے نادرا کا رخ کر لیا بے شمار لوگوں نے نارمل شناختی کارڈ کو سمارٹ کارڈ میں تبدیل کرنے کیلئے پرانے شناختی کارڈ جمع کروا دیئے اور جبکہ سمارٹ کارڈ ایک مہینے بعد ملے گا تب تو مفت آٹے کی فراہمی ختم ہو چکی ہو گی تب یہ سمارٹ کارڈ غریب لوگوں کو ملیں گے آفرین ہے ہمارے حکام بالا پر جنہوں نے ایسی پالیسی بنائی عوام کو رسوا کر کے آٹے کی فراہمی کی یہ وڈیرہ شاہی ذہنیت ہے۔ اس سکیم کو نادرا کے جاری کردہ تمام شناختی کارڈ پر لاگو کیا جاتا تا کہ ہر غریب آدمی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتا۔سرکاری خزانہ حکمرانوں کی جاگیر نہیں عوام کی ملکیت ہے۔ عوام کو بیوقوف بنایا جا رہاہے اور حوا کی بیٹیوں کی تذلیل کی جارہی ہے اگر حکومتی نمائندے گھر گھر جا کر ووٹ مانگ لیتے ہیں، پولیو کے قطرے گھر گھر جا کر پلائے جا سکتے ہیں، بجلی، گیس کے بل گھر گھر پہنچائے جا سکتے ہیں، مردم شماری گھر گھر جا کر کی جا سکتی ہے تو ان غریب لوگوں کیلئے آٹا کیوں نہیں گھر گھر پہنچ سکتا کیوں غریب عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہ دنیا میں پاکستان کو تماشا بنا کہ رکھا ہوا ہے سب کی عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں پوری دنیا میں مثالیں موجود ہیں کہ ہر ملک میں رمضان کے آتے ہی ضرورت اشیاء کی قیمت میں حد درجے تک کمی کر دی جاتی ہے سوائے پاکستان کے یہاں ہر چیز کو دگنا کر کے سیل کیا جاتا ہے آ خر کب تک ایسا ہی چلے گا۔ غریب آدمی کی تذلیل کا یہ سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیے۔ ایسی پالیسیاں کیوں نہیں بنائی جاتیں جن سے عام آدمی کو سہولت ملے۔بہتر تو یہ تھا کہ آٹے کا ریٹ موجودہ ریٹ سے 50فیصد کم کر دیا جاتا تا کہ ہر غریب اور سفید پوش آدمی اسے خرید سکتا ایک طرف مفت کرکے عوام کو ذلیل کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب آٹے کی قیمت موجودہ قیمت سے 100فیصد زیادہ کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے سفید پوش طبقہ بری طرح متاثر ہوا بے شمار لوگ شرم کے مارے اپنی عزت بچانے کیلئے لمبی لمبی لائنوں کی زینت بننا گوارہ نہیں کرتے اور آٹے کے ریٹ میں ظالمانہ اضافہ سے فاقہ کشی کا شکار ہیں۔آخر اس وطنِ عزیز میں یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ کہنے کو تو پاکستان میں بہترین نہری نظام ہے اور زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ ہمیں لاکھوں ٹن گندم بھی باہر سے منگوانی پڑ رہی ہے اس ملک میں عام آدمی کو کب دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ ملے گی؟
104