الہامی و اور تقریبا تمام غیر الہامی مذاہب میں اپنے ماننے والوں کے تزکیہ نفس کے لئے مختلف عبادت و ریاضت کا باقاعدہ اک نظام موجود ہے۔ مذہب اسلام میں بھی مختلف طرح کی عبادت کا مجموعہ موجود ہے کہ
جس پر عمل پیرا ہوناہر اس انسان پر واجب ہے کہ جس نے کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام کو بطور مذہب قبول کر لیا۔البتہ یہ عبادات انسان کی صوابدید ہے کہ وہ ان پر کس حد تک عمل کرتا ہے کیونکہ اسلام میں کسی بھی مقام پر (سوائے فتنہ وفساد کی سرکوبی اور دفاع) طاقت کے استعمال یا جبر کا حکم نہ دیا گیا ۔عبادت کے حوالے سے اہم یہ ہے کہ جب ایک انسان مسلمان ہوتا ہے تو وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ تما م تر قدرت کا مالک خدا ہے اور تما م تر عبادتیں اسی کے لئے ہیں۔اسی لئے عرفاء قرآن و حدیث سے استنباط کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو دل سے خدا کی جتنی معرفت رکھتا ہے وہ اسی اعتبار سے خشوع و خضوع کیساتھ ہر قسم کی واجب و نوافل عبادات کا اہتمام کرتا ہے۔
مختلف انداز میں جانوروں کی قربانی بھی کسی نہ کسی انداز میں تمام مذاہب میں موجود ہے۔ ہندووں مت میں تو دیوتا کو خوش کرنے کے لئے ، کسی خاص مقصد میں کامیابی کے لئے اور بعض اوقات عمرجاوداں کے لئے انسان کی قربانی کا رواج بھی موجود تھا۔ بلکہ کبھی کبھار اب ایسی کوئی خبر آجاتی ہے کہ کسی پنڈت نے دیوی دیوتا کو خوش کرنے کے لئے کسی بچہ کو ذبحہ کردیا۔ مذپب اسلا م میں بھی قربانی کا حکم موجودہے مگر ان لوگوں کو لئے کہ اس کی استطاعت رکھتے ہوں۔
اسلام میں قربان کے حوالے سے اس کو قرآن کی رو سے سنت ابراہیم کہا جاتا ہے۔کہ کس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو فرزندقربانی کا اشارہ ہو۔ اسں اشارہ پر عمل پیرا ہونے کے لئے انہوں نے حضرت اسمعیل ؑ کو اس قربانی اور اشارہ کی بابت بتایا اور حضرت اسمعیل ؑ نے لبیک کہا۔(یہودی اور عیسائی یہاں پر حضرت اسحاقؑ کا نام روایت کرتے ہیں)جب حضرت اسمعیل ؑ تیار ہو گیا اور حضرت ابرہیم ؑ ان کو قربان کرنے کے لئے چھری چلانے لگے تو اللہ نے حضرت اسمعیل ؑ کی جگہ ایک دنبہ ذبح کروادیا اور حضرت ابراہیم ؑ کی اور ان کے فرزند کی قربانی کو قبول کرلیا۔لہذا تمام مسلمان جو جانور قربان کر نے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ ہر سال 10ذلحجہ کو عیدالاضحٰی پڑھنے کے بعد اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔یہ قربانی بارہ ذلحجہ تک کی جا سکتی ہے۔کوئی دنبہ کی قربانی کرتا ہے تو کوئی بکرا کی۔ اکثر لوگ گائے یا بیل اور اونٹ میں حصہ ڈال کے قربا نی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس دس ذلحجہ اور وس محرم الحرم کی قربانی دو مصروں میں سمو کو گویا سمندر کو کوزہ میں بند کردیا۔راقم کی طالب علمانہ رائے میں علامہ اقبال کے مندرجہ ذیل دو مصرع جامعیت اور منعویت کے اعتبار سے زبان ارود کے سرتاج ہیں
سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اسکی حسین ابتداء اسمعیل ہے۔
یاد رہے کہ اسلام میں تما م اعمال کو حسن نیت سے منسلک کردیا گیا ہے کیونکہ محسن انسانیت حضرت محمد(ص) کا فرمان ہے ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ پر ہے لہذا خداکی ذات قربانی کی قبولیت کے لئے یہ نہیں دیکھتی کہ اس قربانی دینے والے کا جانور کتنا خوبصور ت ہے یا وہ کس قیمت کا ہے بلکہ خدا کی ذات اس قربانی کرنیوالی کی نیت کو دیکھتی ہے کہ اس عمل میں نیت کا کیا حال ہے ۔یہ قربانی سنت کے لئے دی جارہی ہے کہ یا اپنا ناک اونچا کرنے کے لئے دی جا رہی ہے۔اس قربان کا مقصد قرب خدا ہے یا پھر اس قربانی کا مقصد اپنی جاہ و حشم کا چرچہ مقصود ہے۔اگر کسی انسان کے ذہن میں بال برابر بھی یہ بات آگئی کہ اس کی اس قربانی کو دیکھ کے لوگ اس کی دولت یا خداترسی و تقویٰ کے معترف ہو جائیں گے تو یاد رہے کہ اس کی قربانی از روئے فرمان مصطفےٰ ضائع گئی۔
بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے گردونواح میں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ اگر جانور ایک لاکھ کا ہے تو بتایا جاتا ہے کہ یہ سوالاکھ کا ہے یا پھر اگر ہمسائے کے بکرے کا وزن تیس کلو ہو تو دوسرا بندہ اپنے بکرے کا وزن چالیس کلو بتائے گا جبکہ حقیت میں اس کا وزن ہو سکتا ہے کہ تیس کلو سے بھی کم ہو لہذا جھوٹ کی آمیزیش سے جھوٹ بولنے والا اپنے ثواب قربانی سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی یتیم کا مال ہضم کرکے یا پھر کسی حقدار کا حق کھا کے یا پھر رشوت اور ناجائز منافع خوری سے قربانی کے جانور کو خریدا جائے تو وہ بھی حرام کے زمرہ میں آئے گا لہذا قربانی کرتے ہوئے جب تما م آداب اسلام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا تو تب ہی یہ قربانی خدا کے حضور قابل قبول ہو گی۔ بیشک اللہ بہتر جانتا ہے۔
قربانی کرنے کے بعد شرعی طریقہ سے گوشت کی تقسیم بھی ضروری ہے کیونکہ اپنے فرج کو بھر لینے سے یا پھر مند پسند طریقے سے تقسیم بھی خدا کو نامنظور ہے۔فقہا کے نزدیک تمام گوشت کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرکے اس کو متعلقہ مستحقین تک پہنچانا بھی قربانی کا ایک اہم اور بنیادی جزو ہے۔اسی طرح چرم ہائے قربانی کے لئے بھی انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کسی شخص کی خوشنودی کے لئے نہ دیا جائے بلکہ وہ بھی ایسے کام میں دیا جائے جہاں خلق خدا کو فائدہ ہو۔ بعض مسالک میں خود قربانی کرنے کے بجائے حصہ کے مطابق رقم کسی ادارے کو دے دی جاتی ہے۔احباب سے گذارش ہے اس موجودہ دور میں جب اسلام کے نام پر بعض لوگوں نے دہشت گردی کا کاروبار شروع کررکھا ہے تو وہ اس باب میں احتیاط سے کام لیں کہ کہیں ان کے حصہ کی رقم یا چرم ہائے قربانی کسی ایسے شخص یا ادارہ کو تو نہیں جارہی جو خدمت دین کے نا م سے کوئی غلط کا م تو سرانجام تو نہیں دے رہے۔احتیاط انتہائی واجب ہے کیونکہ یہ نہ ہو کہ ہم بھی انجانے میں اس کا حصہ بن رہے ہوں اور یقیناًکسی کی جان لینے کے معاون بننے کا عمل عام بھول چوک کے نسبت سادہ نہ ہے۔{jcomments on}