208

عوام کا سرکاری سکولوں پر اعتماد میں اضافہ

تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کاحق دینے کی بھر پور سعی کریں اس حق سے محروم رہ جانے والا بچے ساری زندگی معاشرے میں مجرم کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں بعض والدین کے حالات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ وہ بچوں کی اچھی تعلیم کی اجازت نہیں دیتے تعلیم خواہ گورنمنٹ سکول سے حاصل کی جائے یا پرائیویٹ سیکٹر سے اس کا معیاری ہونا بہت ضروری ہوتا ہے غریب والدین کے لیے سر کاری سکول ہی ہوتے ہیں کیوں کہ پرائیوٹ سکول کے اخراجات برداشت کرنا ان کے بس کے بات نہیں ہوتی ہے کچھ عرصہ قبل سرکاری سکولوں کا ماحول معیاری نہ ہونے کی وجہ سے پرائیوٹ سکولز کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی والدین اپنے بچوں کو سرکاری کے بجائے پرائیوٹ سکولوں سے تعلیم کو اہم سمجھنے لگ گئے تھے اس کی بنیادی وجوہات سرکاری سکولوں کو چیک کرنے کا نظام درست نہ ہونا کتابیں مہنگی خریدنا والدین اور اساتذہ کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونا تھی جبکہ ایک بہت بڑی وجہ جسمانی سزا بھی تھی جو کہ پرائیوٹ سکولز میں نہ تھی جس کی وجہ سے بچے پرائیویٹ سکولز میں داخلہ لینے میں ہی خوشی محسوس کر نے لگے جس کے باعث پرائیوٹ سکولز نے بہت زیادہ ترقی حاصل کی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پرائیوٹ سکولز نے بھی تعلیم کو عام کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ پرائیویٹ سکولز تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسے نوجوان بچے بچیاں جنہوں نے تعلیم تو بہت زیادہ حاصل کر رکھی ہوتی ہے لیکن وہ کسی طرح سرکاری جاب حاصل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ان کو مناسب روزگار بھی دے رہے ہیں جو نیکی کا سبب بھی ہے جب کہ ساتھ ہی پرائیویٹ سکول مالکان نے کچھ غلطیوں اور کو تاہیوں کا مظاہرہ بھی شروع کر دیا ہے جیسے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ غیر تربیت یافتہ اسٹاف اور جو اسٹاف موجود ہے اس کی انہتائی قلیل تنخواہیں اور معمولی سی بات پر استاد کو تبدیل کر دینا روٹین کی فیس کے ساتھ ساتھ کچھ بے نام فیسیں بھی شامل ہیں ان تمام وجوہات کی بنا پر موجودہ وقت میں ان کی اہمیت میں کچھ تھوڑی سی کمی واقع ہوتی نظر آرہی ہے جب کہ دوسری طرف گورنمنٹ نے اپنی تمام تر توجہ سرکار ی سکولوں پر مرکوز کر لی ہے اب سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی این ٹی ایس کے ذریعے خالص میرٹ پر بھرتیاں شروع کر دی ہیں جس سے بی ایس سی اور ایم ایس سی اساتذہ گونمنٹ سکولز میں آرہے ہیں جب کہ نصاب بھی انگلش میڈیم اور نہایت ہی معیاری کر دیا ہے اساتذہ اور سکولز کی نگرانی انتہائی اعلیٰ مانیٹری سسٹم کے ذریعے کی جارہی ہے اور مانیٹرنگ کا نظام انتہائی بہتر کر دیا گیا ہے کہ ایک ایک گھنٹے کے بعد ان کو چیک کیا جا رہے اور اس وقت اساتذہ کا سکول ٹائم سے آگے پیچھے ہونا ایک خواب بن چکا ہے ساتھ ہی گورنمنٹ نے سرکاری سکولوں کی عمارات کو بھی نہایت خوبصورت بنانا شروع کر دیا ہے وسیع کھیل کے میدان اورسیکیورٹی کے بھی معقول انتظامات ترتیب دے دیے ہیں ہر بچے کو درسی کتب مفت فر اہم کی جارہی ہیں جس سے غریب والدین کا بوجھ بہت کم ہو گیا ہے فیسیں اتنی تھوڑی ہیں کہ عام آدمی بھی آسانی سے ادا کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کے یہ کہ جسمانی اور نفسیاتی سزا کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے اور بچے بلاخوف و خطر تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور گورنمنٹ نے یہ پابندی بھی عائد کر دی ہے کہ کسی بھی سرکاری سکول میں کوئی طالب علم سکیورٹی پر معمور نہیں کیا جائے گا اورکسی بھی بچے سے سکول کی صفائی ستھرائی کا کام نہیں لیا جاسکے گا اور ایسا کام کرنے والے سکول سربراہان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی اس عمل سے بھی بچوں کے حوصلے مزید مضبوط ہوئے ہیں سکولوں کے سربراہ ایسے تعینات کیئے جا رہے ہیں جنہوں نے تعلیم کی آخری سیڑھی تک پار کر رکھی ہے لیکن ایک بات کا فقدان اب بھی موجود ہے وہ یہ کہ سرکاری سکول انتظامیہ والدین سے کونسلنگ کو اہمیت بہت کم دے رہی ہے جس کے باعث والدین اپنے بچوں کے بارے میں تشویش کا شکار رہتے ہیں اور بعض سکولوں میں ایسا بھی ہو رہا ہے کہ رزلٹ کے دن بھی والدین کو مدعو نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی والدین کے ساتھ کوئی باقاعدہ میٹنگز وغیرہ کی جاتی ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب اور محکمہ تعلیم کے اعلی حکام کو اس جانب خصوصی توجہ دینا ہو گی کہ جہاں سرکاری سکولوں سے متعلق اتنے اہم کارنامے سر انجام دیے جا رہے ہیں وہاں یہ حکم بھی جاری کریں کہ مہینے میں کم از کم ایک بار تو ہر سکول والدین کو دعوت دے ان کے ساتھ مشاورت کرے اور ساتھ ہی تمام ڈی اوز کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ ہر سکول سے اساتذہ اور والدین کی منعقدہ میٹنگز کی تصویریں طلب کریں اور اس کام کی خود نگرانی بھی کریں تا کہ یہ ثابت ہو سکے کہ واقعی سکول سر براہان والدین کے ساتھ میٹنگ کر رہے ہیں اس عمل سے بھی والدین کااعتما د مزید بڑھے گا اور بہت سے مسائل میں کمی واقع ہو گی یہی وہ اسباب ہیں جن سے متاثر ہو کر عوام نے ایک بار پھر سرکاری سکولوں کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے اگر گورنمنٹ سرکاری سکولوں میں باقی رہ جانے والی کچھ مزید کمیوں پر توجہ دے تو مزید بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے پرائیویٹ سکول مالکان اور انتظامیہ کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے فیس لینا ان کا حق بنتا ہے کیوں کہ بلڈنگز کے بھاری کرائے یوٹیلیٹی بلز اور اس طرح کے دیگر کئی اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ غریب والدین کی مجبوریوں کو بھی مدنظر رکھیں فیسوں سے متعلق کچھ کیٹگریز ترتیب دیں نصاب کسی من پسند جگہ سے خریدنے پر مجبور نہ کریں اسٹاف کو بغیر کسی بڑی وجہ کے تبدیل یا نکال دینے سے پرہیز کریں کیوں کہ اس عمل سے بھی بچوں کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے نئے آنے والے ٹیچر سے ایڈجسٹ منٹ کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے بے معنی تقاریب سے اجتناب کریں ریگولر فیسوں کے علاوہ بے نام فیسیں لینا بند کر دیں غریب والدین کے مددگار بنیں تو کافی بہتری کی صورحال پیدا ہو سکتی ہے بصورت دیگر عوام سرکاری سکولز کو ہی ترجیح دیں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں