85

عمران خان کی 7 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور

اسلام آباد (نمائندہ پنڈی پوسٹ) ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی 7 مقدمات میں 6 اپریل تک عبوری ضمانت منظور کر لی۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔عمران خان کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔عمران خان کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ بائیو میٹرک اعتراض کو 60 سال سے زائد عمر والوں پر لاگو نہیں کرنا چاہیے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اب تو بائیو میٹرک کرانے کا طریقہ بہت آسان ہو گیا ہے۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کی ہے، جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تو گیٹ سے آگے نہیں جانے دیا گیا، عمران خان پر اس روز مزید ایف آئی آرز درج کی گئیں۔چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ آپ پہلے اس بات پر مطمئن کریں کہ ایک فورم کو بائی پاس کر کے یہاں کیوں آئے؟ آپ نے آخر کار جانا ادھر ہی ہے پھر پہلے ٹرائل کورٹ کیوں نہیں گئے؟عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ میں اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پیش کروں گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سادہ سی بات بتائیں کہ جمپ کر کے براہِ راست ہائی کورٹ کیوں آئے؟عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات ہیں، یہاں ماحول بہت بہتر ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہزاروں لوگ آ جائیں گے تو پھر امن و امان کی صورتِ حال پیدا ہو گی، آپ نے ہی اس صورتِ حال کو بہتر بنانا ہے۔عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم کسی کو کال نہیں دیتے، لوگ خود آ جاتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے یہ بات مدِ نظر ہے کہ درخواست گزار ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں اور ان کے فالورز بھی ہیں۔عمران خان کو بات کرنے سے روک دیا گیااس موقع پر عمران خان روسٹرم پر آ گئے تاہم چیف جسٹس عامر فاروق نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور انہیں واپس اپنی نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کر دی۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات ہیں جو جینوئن ہوں گے، ان پر ایک مرتبہ حملہ بھی ہو چکا ہے۔عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیرجدون کو روسٹرم پر بلا لیا۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور فواد چوہدری میں تلخ کلامی دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور فواد چوہدری کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔سیکیورٹی کے سوال پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ عمران خان گاڑی سے نہیں اترے، ان کے لوگوں نے وہاں گاڑیاں جلا دیں۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ سیکیورٹی نہیں دیں گے تو یہ اپنی سیکیورٹی خود کریں گے۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ میں نے بھی سیکیورٹی کے حوالے سے بات کی ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ نہیں! آپ نے یہ بات نہیں کی، آپ جھوٹ بول رہے ہیں، آپ سے زیادہ جھوٹ کوئی نہیں بولتا۔عدالت نے فواد چوہدری اور ایڈووکیٹ جنرل کو کراس ٹاک سے منع کر دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیکیورٹی کے ایشو پر فیڈریشن کو نوٹس کر رہے ہیں اور پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک رہے ہیں، ریاست اس بات کو محسوس کرے کہ وہ ریاست ہے، حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں، ریاست اپنے شہریوں کے لیے موجود ہوتی ہے۔عمران خان عدالت سے روانہ عمران خان ضمانت منظور ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے روانہ ہو گئے۔کمرۂ عدالت میں صحافیوں سے گفتگواسلام آباد ہائی کورٹ کے کمرۂ عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی، سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی ہے۔عمران خان کا کہنا ہےکہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطلب ہوتا ہے رول آف لاء، اپنے امپائر کھڑے کرنے کا مطلب لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہوتا، جو امپائر ساتھ ملا کر کھیلتے رہے ہوں ان کو لیول پلیئنگ فیلڈ کا کیا پتہ؟مذاکرات کے سوال پر عمران خان نے جواب دیا کہ اس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔صحافی نے سوال کیا کہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ یا یہ رہیں گے یا ہم رہیں گے؟عمران خان نے جواب دیا کہ خواہش تو یہی ہے کہ دونوں رہیں، اگر وہ کہہ رہے ہیں تو میں یہی کہوں گا کہ وہ نہیں رہیں گے، اگر آج نامعلوم پیچھے نہ ہوں تو یہ حکومت ختم ہو جائے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ باجوہ صاحب اب کیا کہیں گے کہ شہباز شریف 40 منٹ جھاڑ کھاتے رہے، سیاستدانوں کے لیے مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اظہر مشوانی کو اغواء کیا گیا،حسان کی ضمانت ہوئی تو اسے پھر گرفتار کر لیا گیا، ملک میں رول آف لاء ختم ہو چکا ہے۔صحافی نے سوال کیا کہ ملک میں کس کی حکومت ہے؟چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے جواب دیا کہ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آپ سب کو معلوم ہے۔عمران کا صحافی کا جواب دینے سے انکاراسلام آباد ہائی کورٹ آمد کے موقع پر عمران خان سے ’جیو نیوز‘ نے بات چیت کے دوران سوال کیا کہ وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ یا آپ ہیں یا ہم؟جس پر عمران خان نے کہا کہ اس کی کیا حیثیت، کس کا نام تم نے لے لیا؟عمران خان سے سوال کیا گیا کہ اب آپ صحت یاب ہو گئے ہیں، کیا کوئی مذاکرات کریں گے؟ کیا آپ سیکیورٹی سے مطمئن ہیں؟عمران خان نے جواب دیا کہ سیکیورٹی تو ہے ہی نہیں، سیکیورٹی تو صرف اپنی ہے۔عمران خان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان اور عوام کو سیاسی مفاہمت اور سیاستدانوں کی بات چیت کی ضرورت ہے؟عمران خان نے جواب دیا کہ میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔بم ڈسپوزل اسکواڈ کی اسکریننگ اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا کورٹ روم نمبر ون خالی کرا لیا گیا۔عدالت کی جانب سے تمام وکلاء اور سائلین کو ڈویژن بینچ کے کیسز ختم ہونے پر کورٹ روم سے جانے کی ہدایت کر دی گئی۔بم ڈسپوزل اسکواڈ نے کورٹ روم نمبر ون کی اسکریننگ کی۔بم ڈسپوزل اسکواڈ کی کلیئرنس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے کورٹ روم میں عمران خان کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کچھ دیر بعد ہو گی۔اس سے پہلے بھی بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے نے جوڈیشل کمپلیکس میں چیکنگ کی تھی۔عمران کی گاڑی کو پہلے روکا، بعد میں اجازت اس سے قبل وکیل علی بخاری نے بتایا تھا کہ عمران خان کی گاڑی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے اندر داخلے کی اجازت مل گئی جبکہ پولیس نے ہائی کورٹ سائیڈ پر تمام گاڑیوں کو روک لیا۔دوسری جانب پولیس نے پہلے تو عمران خان کی گاڑی کو ہائی کورٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تاہم بعد میں گاڑی کو احاطۂ عدالت میں داخل ہونےکی اجازت دے دی گئی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں