232

علماء کرام کامعاشرے میں کردار

بلاشک وشبہ معاشرے کودرست سمت لیکرجانا‘مسلم قوم کی راہنمائی کرنا‘قوم کے بچوں کوقرآن وسنت کی تعلیمات سے روشناس کرانے میں مساجد ومدارس کاکردارانتہائی اہمیت کا حامل ہے

اس سے کبھی بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان مدارس ومساجد کی خدمت کرنیوالوں نے اپنی زمہ داریاں بخوبی سر انجام دیں‘ تمام اموربروقت احسن طریقے سے منظم انداز میں اداء کرنے میں کبھی بھی کوتاہی وغفلت سے کام نہیں لیا

جب سے ان لوگوں نے اس عملی میدان میں قدم رکھا اپنے منصب کوسنبھالاامامت وخطابت سمیت دیگرفرائض سرانجام دئیے ایک عظیم مشن سمجھ کر ان کی ادائیگی کی قال اللّٰہ وقال رسول اللہﷺ کی صدائیں بلندکیں

جس سے ثابت ہوایقیناً ان کا کوئی ثانی نہیں یہ سب ایسے کام ہیں جوقسمت،نصیب اورسعادت مندی کی علامت ہے۔ قرآن کی تعلیمات عام کرنااور امت مسلمہ کودینی تعلیمات سے روشناس کرنا صدقہ جاریہ ہے

مسجد، مدرسہ اورمکتب کی خدمت کرنا اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ ایسے لوگوں کوہی انبیاء کرام علیہم السلام کاوارث کہاگیاہے۔ دین سے وابستگی اورثابت قدمی ایک عظیم مشن ہے

لیکن ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات قطعاًنہیں بھولنی چاہیے کہ یہ دنیادارالاسباب ہے یہاں رہنے کیلئے دین کیساتھ ساتھ دنیاوی ضروریات بھی لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہمارے سامنے ہیں

یعنی کہ دنیامیں رہنے کیلئے خوشی‘ غمی،کھانے پینے،رہن سہن،بیوی وبچے،تعلیم ودیگراخراجات کیلئے دنیا میں چلنے والاسکہ بھی ضروریات زندگی میں اہم کردار اداء کرتاہے

آج کے اس کھٹن مراحل سے گزرتے دورمیں مہنگائی نے ہرفرد,ہرشخص کو،ہرخاص وعام کومتاثر کیاہے چاہے وہ تنخواہ دارطبقہ ہو یا تجارت کرنے والا،سرکاری ملازم ہویاکہ پرائیویٹ،کسی بھی ادارہ سے کوئی وابستہ ہوسب ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں

اب تولوگ لاکھوں کما کربھی بے بسی کی تصویر بنے مجبورولاچاردکھائی دے رہے ہیں۔ ایک طرف ہر وہ شخص جوکسی ادارے میں ملازمت کرتاہے اس کاٹائم مقرر ہے

اگراس ٹائم سے زائداس سے کام لیا جائے گا تواسے اوور ٹائم کی صورت میں اضافی رقم دی جاتی ہے۔ پھرہفتہ وار،ماہانہ سالانہ چھٹیوں سے بھی لطف اندوز ہوتاہے

تنخواہ بھی موجودہ دورکے مطابق ملتی ہے بہت ساری جگہوں پرمیڈیکل الاؤنس وغیرہ کی مدمیں الگ سے دئیے جاتے ہیں لیکن اسکے مقابل میں اگروارثین انبیاء کرام علیہم السلام کودیکھاجائے ناتوان کا ٹائم مقرر ہے ناان کو اوور ٹائم ملتاہے اور ناہی وہ ماہانہ اورسالانہ چھٹیاں کرتے ہیں

۔ بروقت ہروقت ہرموسم میں ہمہ وقت وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ آذان، امامت، خطابت، منبر ومحراب،نماز تراویح,نماز جمعہ،عیدین اور نمازجنازہ اداء کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان کوجووظیفہ دیاجاتاہے

وہ اس دورمیں ایک مزدورکی اجرت سے بھی انتہائی کم ہے آج کے دور میں ایک مزدور صبح آٹھ بجے سے لیکرشام چار بجے تک کام کرتاہے وہ تیس سے چالیس ہزارماہانہ کماتاہے حالانکہ مزدورکوکوئی کچھ سمجھتا نہیں باوجود اس کے ایک مزدور تیس سے چالیس ہزار کمارہاہے

اگرمزدوربھی اپنے ٹائم سے زائدکام کرے گاتواسے الگ سے اجرت ملے گی جبکہ آئمہ کرام جوعظیم الشان بے مثال، لاجواب، لازوال خدمات سرانجام دیرہے ہیں جن کاکوئی ثانی نہیں ان کاوظیفہ ایک مزدورکی اجرت تودورکی بات ان کی نصف اجرت سے بھی کم ہے

یعنی کہ آج کے دور میں دس ہزار،بارہ ہزار،یاپھر پندرہ ہزاروظیفہ مقررکیاجاتاہے یہ وظیفہ امامت کاطے ہوتاہے لیکن مسجدکی انتظامیہ جن کازیادہ ترکام صرف امام مسجد پرحکم چلاناہوتاہے

سہولیات اورمعقول وظائف دینے کی بجائے ان مساجدکمیٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں ان کے سپردکریں،زیادہ سے زیادہ پابندیاں امام مسجد پر لگائیں اوران سے زیادہ سے زیادہ کام لیں‘ مثال کہ طور پرامام مسجد کاکام ہوتاہے

صرف امامت کروانا لیکن وہ امامت کے ساتھ ساتھ خطابت،درس وتدریس،ناظرہ وحفظ کی کلاس، وضوکیلئے پانی کابندوبست کرنا،واش روم کی صفائی ستھرائی کا دھیان رکھنا، پنکھے اور لائٹس بندکرنا،صبح سب سے پہلے آکرمسجدکے دروازے کھولنا،رات کوسب سے آخرمیں مسجدکے دروازے کوبندکرکہ گھرجانا ان سب کا اضافی بوجھ امام مسجدکے کندھے پرڈال دیا جاتا ہے

جبکہ وظیفہ صرف امامت کامقررہوتاہے اب انتظامیہ کوچاہیے یاتوصرف امامت کا وظیفہ مقررکرے اورامامت کی ذمہ داری سپردکرے اگردیگرذمہ داریاں عائدکرتے ہیں

تو ایک ہی وظیفہ سے دیگر زمہ داریوں کابوجھ ڈالناناانصافی ہوگی لیکن اگردیگرذمہ داریاں کابوجھ ڈالنا ہی ہے تو پھرذمہ داریوں کے حساب سے الگ الگ وظائف بھی مقررکریں

کیونکہ جب یہ سب وظیفہ مقررکرنے والے خودجہاں بھی کام کرتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ اجرت لیں اوور ٹائم الگ سے لیں

لیکن جب یہی لوگ انتظامیہ اور کمیٹی ممبربن کر سامنے آتے ہیں توان کاہدف علماء کرام کی کم سے کم تنخواہ مقرر کرکہ زیادہ سے زیادہ ان سے کام لینا ہوتاہے

جوکسی بھی صورت ان کااحترام نہیں اورناہی یہ دین کی خدمت ہے لوگ سمجھتے ہیں مساجدومدارس کی تعمیر وترقی نقش ونگارکرنااعلی درجہ کاڈیزائن تیارکروانا ہی مساجدکی خوبصورتی ہے

جبکہ انہیں یہ بات بلکل نہیں بھولنی چاہیے کہ مسجد ومدرسہ کی اصل خوبصورتی اس کے آباد کرنے والے سے ہوتی ہے لہذاہمارے معاشرے کایہ لوگ بھی حصہ ہیں

ان کاخیال رکھنا انکی ضروریات کے پیش نظر اس حساب ان کے وظائف مقررکرنا منتظمین کی زمہ داریوں میں شامل ہے جس سے نا تو انکارکیاجاسکتاہے اورناہی ان حقائق کوجھٹلایا جاسکتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں