عدالتیں اور نون لیگ 268

عدالتیں اور نون لیگ

پاکستان کا عدالتی نظام بہت ہی پیچیدہ مہنگا‘ بڑا ہی صبر آزما اور دوہرے معیار کا ہے امیر اور غریب کے انصاف کے عمل میں زمین آسمان کا فرق ہے امیر کے لیے ایک چیز کی پیمائش انچوں میں اور غریب کے لیے گزوں میں ہوتی ہے یعنی ایک ہی گناہ امیر کے لیے چھوٹا ہو جاتا ہے جبکہ غریب کے لیے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی ہے امیروں کی اپیل ایک دن دائر ہوتی ہے اور دوسرے دن شنوائی شروع ہو جاتی ہے تاکہ حضور والا کو انتظار کی زحمت نہ اٹھانی پڑے جبکہ غریب اپنی باری کے انتظار میں سالوں بیتا دیتا ہے اس کی سب سے واضح مثال سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ہے جس میں چودہ لوگ شہید ہوئے اور اس کیس کو سات سال بیت جانے کے باوجود ابھی شروع بھی نہیں ہوا کیونکہ وہ سارے غریب تھے چاہیے تو یہ تھا کہ اسے ترجیح بنیادوں پر سنا جاتا کیونکہ مد مقابل طاقتور اور مال دار ہے ہمارا ترازو ان کے سامنے بڑی جلدی جھک جاتا ہے اسی وجہ سے نظریہ ضرورت بھی ایجاد ہوتا ہے ان ہی وجوہات کی بنا پر دنیا میں انصاف فراہم کرنے میں ہمارا 120 واں نمبر ہے عدالتی نظام کر یہاں تک پہنچانے میں ہمارے حکمرانوں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے اور دوسرے نمبر پر ججز کا جو ان کی ایما پر نظریہ ضرورت کی گنجائش نکالتے رہے اگر سیاسی جماعتوں پر نظر دوڑائی جائے تو عدالتی فیصلوں کو متنازع بنانے اور ججز کو آپس میں تقسیم کرنے اور ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے میں سب سے زیادہ نون لیگ نے کردار ادا کیا ہے آئیے میں ذرا آپ کو پیچھے لے چلتا ہوں جب میاں محمد نواز شریف کا دوسرا دور حکومت تھا اس وقت نیب کی جگہ احتساب کمیشن یا احتساب بیورو ہوا کرتا تھا جو کرپشن کے معاملات دیکھتا تھا احتساب کمیشن کے سربراہ سیف الرحمان تھے جو آصف علی زرداری اور بینظیر بھٹو کے خلاف سوئس مقدمات پر تفتیش کر رہے تھے احتساب قانون کے تحت بننے والی احتساب عدالتیں ہائی کورٹ کے دو ججوں جسٹس قیوم اور جسٹس نجم الحسن پر مشتمل تھیں یہ بینچ بینظیر بھٹو اور آصف زردای کے خلاف ایس جی ایس کوٹیکنا مقدمے کی سماعت کر رہا تھا سیف الرحمان اور جسٹس ملک قیوم کی ایس جی ایس کوٹین کا مقدمے میں بینظیر بھٹو اور آصف زراری کے مقدمات پر فون پر گفتگو ہوئی سیف الرحمان فون پر جج کو سزا دینے سے متعلق اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ہدایات پہنچا رہے تھے اور دوسری آڈیو خود شہباز شریف کی جسٹس قیوم کے ساتھ گفتگو کی سامنے آئی جس میں وہ کسی ایم این اے کے کیس میں ان کے حق میں فیصلہ کرنے کا کہہ رہے تھے ان آڈیو کے سامنے آنے کے بعد جسٹس قیوم نے استعفیٰ دے دیا بعد ازاں وہ اٹارنی جنرل بھی رہے میاں نواز شریف جب دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم بنے تو دو تہائی اکثریت کی وجہ سے کئی ایسے بل پاس کیے جن پر اعتراضات اٹھائے گئے حکومت کا ایک فیصلہ انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کا قیام تھا چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ ان خصوصی عدالتوں کے قیام کے حق میں نہیں تھے اس تنازع کی ایک وجہ یہ بھی بنی اور دوسری نواز شریف نے آئین میں 13 ویں ترمیم کے ذریعے صدر کا اسمبلی کی برطرفی کے اختیار آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کا خاتمہ کر دیا تو سپریم کورٹ نے اس اختیار کو بحال کر دیااسی روز سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس سعید الزمان صدیقی (یہ وہی سعید الزماں صدیقی ہیں جن کو نواز شریف صاحب نے ان کی عمر کے آخری ایام میں بیماری کی حالت میں سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا شاید یہ اسی احسان کا بدلہ چکایا گیا تھا) نے ان اختیارات کو ایک بار پھر معطل کر دیا یہ وہ دن تھا کہ سپریم کورٹ مکمل طور پر تقسیم ہو گئی اسی دوران کوئٹہ رجسٹری میں موجود بینچ کے سربراہ جسٹس ارشاد حسن خان نے سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی پر سوال اٹھایا اور بطور چیف جسٹس کام کرنے سے روک دیا بعد ازاں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس سجاد علی شاہ کے بطور چیف جسٹس تقرری کے حکم نامے کو منسوخ کر دیا اس طرح ہماری معزز عدلیہ کے چیف جسٹس کو بے توقیر کر کے نکال دیا گیا 28 نومبر 1997 کو سپریم کورٹ کا ایک بینچ چیف جسٹس کی سربراہی میں نواز شریف کے توہین عدالت کیس کی سماعت کر رہا تھا اور اسی دن فیصلہ متوقع تھا کہ مسلم لیگ نون کے چند ایم این ایز نے اوباش جوانوں کو ورغلا کر بلوائیوں کی طرح سپریم کورٹ کے اسی کورٹ روم پر حملہ کر دیا جہاں سماعت ہو رہی تھی کسی صحافی نے چند لمحے پہلے اطلاع کر دی کہ حملہ ہونے والا ہے اس بنا پر جج صاحبان تو اپنی جان بچا کر چلے گے اور شامت مخبر کی آ گئی بڑی مشکل سے صحافی کو بچایا گیا سپریم کورٹ کی تختی کو توڑ کر پاؤں کے نیچے روندا گیا بڑے دکھ سے لکھنا پڑ رہا ہے افسوس صد افسوس ایک ٹکٹ کے لیے اس گھناونے کھیل میں وہ شخص شامل تھا بلکہ بڑھ چڑھ کر نوجوانوں کا حوصلے بڑا رھا تھا جو بڑے فخر سے بیان کرتا تھا کہ میں اس باپ کا بیٹا ہوں جو پاکستان بننے سے پہلے بھی اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لکھتا تھا میری مراد عزیز پاکستانی کا بیٹا طارق عزیز یہ نزاع اس قدر بڑھا کیوں اس کے پیچھے وجہ کیا تھی جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ یہ کیوں ہوا سجاد علی شاہ کا گناہ یہ تھا کہ جب 1993 میں نواز شریف کی حکومت صدر غلام اسحاق خان نے بر طرف کر دی تو نواز شریف نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر دی گیارہ رکنی بینچ نے سماعت کی گیارہ میں سے دس ججوں نے صدر کے اقدام کو غلط قرار دے کر نواز شریف کی حکومت بحال کر دی جبکہ ایک جج سجاد علی شاہ نے اختلافی نوٹ لکھا نواز شریف کی طبیعت پر ناگوار گزرا نواز شریف صاحب نے یہ بات دل پر لے لی اور موقع کی تاک میں رہے جب ان کو موقع ملا تو انہوں نے عدالت کے تقدس کو بلانے طاق رکھتے ہوئے اپنے دل کی ٹھنڈک کا سامان کیا یہ سارے اقدام اپنے دلی سکون اور دشمن کو مزا چھکانے کے لیے تھے اب بھی جو یہ آڈیو ویڈیو سکینڈلز سامنے آ رہے ہیں اور مزید کتنے آئیں گے یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں جس نے بھی ان کی آرزو منشا سے ہٹ کر کام کیا یا ان کے خلاف فیصلے دیے ان کی لابی اس کو اتنا گندا کرے گی کہ وہ منہ چھپاتا پھرے گا اور دوسرں کے لیے بھی باعث سبق ہو گا جو بھی ان کے سامنے آیا جو بھی ان کے لیے رکاوٹ بنا یا بننے کی کوشش کی انھوں نے چن چن کر اس سے بدلہ لیا یا لیا جائے گا کیونکہ یہ نہ سننے کے عادی نہیں ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں