میرا اورپنڈ ی پوسٹ کا ساتھ جسکو چار سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے میں نے باقاعدہ پنڈی پوسٹ کے لیے ڈائری 2018 کے الیکشن میں محترم چوہدری عبدالخطیب صاحب کے کہنے پر لکھنا شروع کی گوکہ اس سے پہلے ڈائری کا مجھے کوئی اتنا وسیع تجربہ بھی نہیں تھا کہ ڈائری کیسے لکھتے ہیں اور اس میں کیا ہوتا ہے حالانکہ میں نے اپنی صحافت کا آغاز بطور کالم نگار ہی کیا تھا لیکن پھر جب رپورٹنگ میں آئے تو کالم نگاری کو اتنا ٹائم نہیں دے سکا لیکن انکے اسرار پر حامی بھر لی اور اپنے قلم کو جنبش دی مگر مجھے یقین نہیں تھا کہ اسکا رسپانس اتنا آئے گا کہ دیکھتے ہی دیکھتے میری علاقائی ڈائری ہر زبان زد عام ہوجائے گی اس وقت الیکشن کے دوران ہر سیاسی پارٹی کے امیدوار نے میری ڈائری کو نہ صرف پڑھا بلکہ اپنی قیمتی آراء بھی دی اور الحمداللہ اس دوران اپنی ڈائری میں کی گئی تمام تر پیشن گوئیاں اور تمام تر تحفظات وقت نے ثابت کیا کہ سب درست ثابت ہوئے جس کے بعد سے آج چار سال سے زائد عرصہ ہونے کو باقاعدگی سے پنڈی پوسٹ کے لیے لکھ رہا ہوں اب اگر کبھی ڈائری نہ لکھوں تو قارئین کی طرف سے بھی پوچھا جاتا کہ اس دفعہ آپکی ڈائری نہ آنے کی کیا وجہ ہے اس پر میں اپنے قارئین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو میری ڈائری کو پسند کرتے ہیں اور انکو میری تحریر کا انتظار رہتا ہے اور ان سب کا بھی بے حد مشکور ہوں جو اپنی قیمتی آراء و تجاویز سے نوازتے ہیں کہ میں اس میں مذید کیسے نکھار لا سکتا ہوں کیسے اسکو بہتر کرسکتا ہوں اور ایسے میں جو چند لوگ مجھے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں انکا بھی شکریہ کیونکہ انکی وجہ سے ہی میں اپنی قلم میں مذید نکھار لانے کی کوشش کرتا ہوں ایک بات یہاں کہنا چاہوں گا کہ کسی بھی قافلے کو منزل تک پہنچنے کے لیے دوچیزیں درکار ہوتی ہیں مضبوط حوصلہ اور مخلص ساتھی پنڈی پوسٹ بھی اپنی منزل کی طرف ان ہی دونوں چیزوں کو مضبوطی سے تھامے چل رہا ہے جس کی وجہ سے اسے دس سال کی مدت میں وہ کامیابی ملی جس کا لوگوں کو گمان بھی نہ تھا کیونکہ ایک دیہی علاقے سے ایک نئے اخبار کو نکالنا وہ بھی اس وقت جب بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کی ہر جانب بھرمار ہو کسی بھی مشکل سے کم نہ تھا مگر یہاں کی عوام نے بھی اپنے آزمائے ہوئے حق گو صحافیوں کا ساتھ دیا کیونکہ چوہدری عبدالخطیب اسی علاقے میں رہ کر مختلف اخبارات کے لیے کام کرتے رہے ہیں اس لیے انکی شخصیت علاقے میں پہلے سے ہی جانی پہچانی جاتی تھی یہ سچ ہے کہ کسی بھی اخبار کی کامیابی اس کے قارئین پر منحصر ہوتی ہے کہ قارئین کے ذوق کے موافق وہ اخبار مواد فراہم کرے پنڈی پوسٹ اور چوہدری عبدالخطیب صاحب کا یہ خاصا رہا ہے کہ انھوں نے اول دن سے ہی علاقائی سطح پر منتشر شیرازے کو اپنی صحافت کے ذریعہ متحد کرنے کی کوشش کی، علاقے کے مسائل کو نہایت ہی بے باکی سے اُٹھایا جس کا یہاں بسنے والے افراد بھی اعتراف کرے گے، ہر دور کی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کیں اور انہیں یہ بتادیا کہ حقیقی صحافت کسے کہتے ہیں اور زرد صحافت کے پروردہ لوگوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا آج مجھے لکھتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ ہمارا یہ اخبار اپنا دس سالہ سفر پورا کررہا ہے جس کے لیے تمام اسٹاف اور خصوصی طور پر چوہدری عبدالخطیب صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے جس طرح کم سرمائے اور وسائل کی کمی کے باوجود کامیابی سے یہ سفر طے کیا ہے اس کی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ اخبار کی کامیابیوں میں ہمارے قارئین کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے اگر ان کا تعاون نہ ہوتا تو یقیناً ہم کامیاب نہیں ہوپاتے ہم سلام کرتے ہیں ان قارئین کو جنہوں نے ہمیں تعاون بخشا، علاقے کی خدمت کے لیے وقف اور علاقائی آواز ”پنڈی پوسٹ“ کا ساتھ دیا آئندہ بھی ہماری یہی کوشش رہے گی کہ ہم آپ کی امیدوں پر پورے اتریں اور آپ کی آواز بن کر ایوانوں میں گونجیں بے باکی اس اخبار کا خاصا ہے اور اس کے لیے ہم اس سے قبل بھی جانے جاتے تھے اور آج تک یہ ثابت کردیا ہے کہ ہمارے پایہ قدم میں لغزش نہیں آئی ہے اور ان شاء اللہ ہم اپنی اس ناتواں آواز کے ذریعہ اس علاقے کی عوام کو اس کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے کوئی بھی چیز چھوٹی نہیں ہوتی اور ہم نے خود کو کبھی چھوٹا تصور بھی نہیں کیا ہم نے اپنے اہداف ومقاصد بڑے رکھیں اور خدا سے پرامید ہوکر قوم کی خدمات کے لیے خود کو وقف کیا اور اس کی آواز بنے آج ہمیں اس آٹھویں سالگرہ پر اندازہ ہورہا ہے کہ پنڈی پوسٹ واقعی اپنے علاقے کی آواز ہے،نہیں تو راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم میں ایک اخبار کا مارکیٹ میں آنا اور یوں بے دھڑک ہو کر کام کرنا کسی بھی معجزے سے کم نہ تھا مگر چیف ایڈیٹر کی محنت اور ان سے وابسطہ مخلص ساتھیوں کی لگن نے یہ کر دکھایا کہ انسان کا اللہ کی ذات پر کامل ایمان ہو تو کوئی بھی چیز اس کے لیے مشکل نہیں ہوتی۔
