ایک شخص کسی پڑھے لکھے گھرانے میں پیدا ہوتا ہے والد صاحب پڑھے لکھے انسان ہیں کوئی جاب بھی کررہیں بچے کو پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں. بچے بہتر انداز میں پڑھ جاتے ہیں اور اچھی جاب ڈھونڈ لیتے ہیں یا کوئی کاروبار کرلیتے ہیں بلاشبہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے .
اس باپ کی اور اس سے بڑ کر اس اولاد کی لیکن دوسری طرف ایک باپ ان پڑھ ہے معمولی دیہاڑی دار مزدور ہے ایسا باپ بچوں کی انگلی پکڑ کر سکول بھیجتا ہے پھر ان کے لئے مشکلیں جھیلتا ہے وہ اولاد والدین کی مشکلات کو سمجھ کر اور حالات کا ادراک کرنے کے بعد آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے
۔والدین کی خواہش ہے ہم مزدور ہیں ان پڑھ ہیں ہمارے بچے پڑھ جائیں اس کا مستقبل بہتر ہو جائے اور اولاد والدین کی ساری مشکلات کو سمجھتے ہوئے اچھے مستقبل کی امید لئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے پھر اگر وہ اولاد منزل کو پالے اور منزل پر پہنچ کر والدین کی امیدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں
آج ایک ایسے کردار کا ذکر لیکر آپ کی محفل میں حاضر ہورہا ہوں
وہ کردار بلاشبہ ہم سب کے لئے رول ماڈل ہیں آج کے اس مایوس نوجوان کے لئے رول ماڈل ہیں جو شارٹ کٹ کے چکر کبھی ڈاکے مارتا ہے ، کبھی غیر قانونی بیرون ملک جانے کے لئے والدین کے لئے مشکلات کھڑی کرتا ہے والدین کو مجبور کرتا اور والدین انسانی سمگلروں کے حوالے اپنے بیٹے کردیتے ہیں پچیس تیس لاکھ ڈبو دیتے ہیں اور بیٹے کو کشتیوں کے حوالے کردیتے ہیں کچھ کی لاشیں سمندر میں غرق ہوجاتی ہیں
کچھ دھکے کھانے کے بعد غیر قانونی طور کسی یورپی ملک میں داخل ہوجاتے ہیں اور ساری زندگی دھکے کھاتے رہتے ہیں آج جس نوجوان کا ذکر کرنے جارہا ہوں ان کے والد صاحب ان پڑھ تھے ، مزدور تھے ، ان کے والدین آزاد کشمیر کے ضلع میرپور میں منگلا ڈیم بننے کی وجہ سے ہجرت کرکے آگ راولپنڈی کے قریب روات پہنچے تھے ان کے والد صاحب بالکل چھوٹے تھے ان کے دادا جی وفات پاگئے تھے
پھر والد صاحب نے یتیمی کی حالت میں زندگی کا آغاز کیا بڑے کٹھن مراحل سے گزر کر اپنی اولاد کو پالا، آج ان ہی لخت جگر کا ذکر کرنے جارہا ہوں ان کے کے لخت جگر ہمارے لئے اور پوری سوسائٹی کے لئے رول ماڈل ہیں
تو آج اسی ہی شخصیت کا تعارف کرانے جارہا ہوں جو ایک مزدور کا بیٹا ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے ،
وہ شخصیت چیف ایڈیٹر ہفت روزہ پنڈی پوسٹ چودھری عبدالخطیب ہیں، انہوں نے جس گھر میں آنکھ کھولی، وہ گھر ایک خوددار مزدور کا گھر تھا آپ 3 جون 1975 موہڑہ بھٹاں تحصیل راولپنڈی میں پیدا ہوئے ان کے والد صاحب کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں ،چوہدری عبدالخطیب نے پرائمری کی تعلیم آبائی گاوں موہڑہ بھٹاں میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول روات سے 1992 میں پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان 1994 میں روات سے پاس کیا بی اے کا امتحان پوسٹ گریجویٹ کالج ایچ 8 اسلام آباد سے پاس کیا، 1998 سے صحافت شروع کی اور 2001 میں گاوں کے متفقہ فیصلے کےنتیجے میں یوسی مغل سے جنرل کونسلر کے امیدوار نامزد ہوئے
،پھر کونسلر منتخب ہونے کے بعد یوسی مغل کے تمام سکولوں میں سٹاف اور بچوں کے لئے کرسیاں اور ٹیبل مہیا کئے ، اپنے گاؤں کی گلیوں کو پختہ کروانے کے لیے CCB کے تحت 720000 خرچ کروا کر تمام گلیوں کو پختہ کروایا ،موہڑہ بھٹاں سکول کے لئے کنواں کھودوایا ، سکول کی چار دیواری مکمل کروائی ، چوہدری عبدالخطیب کے چار بھائی تھے دو بھائی چوہدری محمد حبیب ، چوہدری محمد حنیف اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں دو ماشاءاللہ حیات ہیں اور چوہدری عبدالخطیب کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اپ نے 2001 سیمنٹ کا کاروبار شروع کیا
پھر 2007 ء بطور سیمنٹ ڈسٹری بیوٹر اپنا نیٹ ورک شروع کیا اور آج ان کا کاروبار روات سے لیکر کلر سیداں اور راولپنڈی کے مضافات تک پھیلا ہوا ہونے کی بناء پر ان کا نام بڑی کاروباری شخصیات میں گردانا جاتا ہے 2012 ء میں انھوں نے اخبار پنڈی پوسٹ شروع کیا آج پنڈی پوسٹ اخبار تین قومی اسمبلی کے حلقوں میں بہت مقبول ہے انھوں نے صحافت کے ستارے ڈھونڈے جن میں طارق بٹ ، پروفیسر شاہد جمیل ، شہزاد رضا ، آصف شاہ ، ملک اقبال ، چوہدری اشفاق ، یہ صحافت کے ستارے آج صحافت کی دنیا میں جگمگارہیں
، چوہدری عبدالخطیب ایک طرف بڑی کاروباری شخصیت ہیں دوسری وہ ایک بہترین سماجی اور سیاسی شخصیت بھی ہیں وہ خود لاکھوں روپے اپنی جیب سے خرچ کرکے غریب لوگوں کو کاروبار بھی شروع کردیتے ہیں اپنے چھوٹے بھائی کے یتیم بچوں کی مکمل سرپرستی ان کے زمہ ہے ان کے اپنے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے ان کے والد صاحب اپنے گلشن کو آباد دیکھ کر 2016 میں فوت ہوئے ، جو ان کے پاس بیٹھتا ہے وہ محسوس کرتا چوہدری عبدالخطیب اس کے سب سے زیادہ قریب ہیں
ملک کے سکتے مسائل پر وہ سیاسی اور سماجی شخصیات کو ایک جگہ بٹھانے کا ہنر جانتے ہیں مذہبی حلقوں میں ان بڑا احترام پایا جاتا ہے ہر فرد ان کے سامنے اپنے دل کے دکھڑے بیان کرسکتا ہے وہ سنتے بھی ہیں اور حل بھی کرنے کوشش کرتے ہیں مطالعہ کا بہت شوق رکھتے ہیں ان کو سید مودودی رحمہ اللہ کے ترجمے والا قرآن پچھلے سال گفٹ کیا تھا اس کو باقاعدہ پڑھتے ہیں
ترجمان القرآن کے مستقل قاری ہیں ،
دین سے محبت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے عاشق اور ختم نبوت کے داعی ہیں اس طرح ایک مزدور کا بیٹا ایک طرف بڑی کاروباری شخصیت ہیں ، صحافت میں ان کا ایک نام ہے ایک سیاسی اور سماجی شخصیت کے طور معاشرے میں خیر بانٹ رہیں ہیں معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو اوپر اٹھانے میں اپنا پورا حصہ ڈال رہیں یہ ہے
معاشرے میں میرے نوجوانوں کا ،مزدوروں کا رول ماڈل ، اللہ تعالیٰ نے ان کی شخصیت میں لاتعداد خوبیاں رکھیں ہیں وہ حقیقی معنی میں اندھیروں میں چراغ جلا رہیں
آئے ہم بھی اپنے حصے کے چراغ جلائیں بہت اندھیرے ہیں
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی