108

عام آدمی کی طاقت/میاں بابر صغیر

کسی بھی معاشرے میں عدل و انصاف کی فراہمی اور قانون کا مؤثر نفاذ ہی اس کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے آج جہاں ایک طرف ہم یورپ اور امریکہ کواسلام کا دشمن قرار دیتے ہیں ان کو گالیاں نکالتے ہیں ان پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں اور ان کو اپنا سب سے بڑا مجرم تصور کرتے ہیں تو دوسری طرف ہجرت کے لیے بھی وہ ہماری اولین ترجیح ہوتی ہے ہم کسی نہ کسی طرح کوشش کرتے ہیں کہ وہاں کا ویزا حاصل کر سکیں خاص طور پر ہماری بزنس مین کمیونٹی اور ہمارے طلبا کی تو ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح وہاں پر اپنا بزنس کریں وہاں پر پڑھائی مکمل کریںیا پھر کم از کم وہاں پر جاب ہی حاصل کرلیں ہم پاکستان کی نسبت یورپ اور امریکہ میں اپنے مستقبل کو محفوظ تصور کرتے ہیں کبھی ہم نے سوچا کہ وہاں ایسی کو نسی چیز ہے جو ہمارے ملک میں نہیں ہے خاص طور پر جب ہمارا ملک بے شمار وسائل سے مالا مال ہے یہاں ہمیں ہمارا اپنا کلچر اور اپنی تہذیب میسر ہے یہاں ہم اپنے بچوں کو مذہبی سہولیات اور مذہبی کلچربھی فراہم کرتے ہیں اس کے برعکس امریکہ اور یورپ میں ہمیں غیر مذہب کا سامنا کرتے ہوئے اپنی اور اپنے بچوں کی تعلیم و تر بیت میں مشکلات پیش آتی ہیں ہم اپنے مذہب اور کلچر کو وہاں غیر محفوظ تصور کرتے ہیں ان سب کے باوجود بھی ہم امریکہ اور یورپ جانے کے لیے غیر قانونی طریقے اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات تو اپنی فیملی اور اپنی جان بھی داؤ پر لگادیتے ہیں یہ سب کچھ صرف اور صرف اس لیے ہے کہ وہاں عدل و انصاف کی فراہمی عام ہے اور قانون سب کے لیے برابر ہے وہاں پر جو بھی جاب کرے گا اس کو وہ سارے حقوق حاصل ہوتے ہیں جو وہاں پر رہنے والے مقامی افراد کو ہوتے ہیں ان کا سرمایہ وہاں محفوظ ہوتا ہے حتیٰ کہ وہاں حاصل کی گئی تعلیم بھی پوری دنیا میں قابل قبول ہوتی ہے وہاں بیٹھ کر آپ دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور نتیجے میں آپ کو تمام سہولیات اور حوصلہ افزائی میسر ہو گی امریکہ کی ٹاپ کلاس کمپنیوں کے زیادہ تر مالکان اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے ہی اس مقام پر پہنچے ہیں اب آپ ہماری کامیاب کمپنیوں کے مالکان یا حکومتی اداروں کے سربراہوں کا جائزہ لے لیں ہمارے ملک میں موجود چند بڑے خاندان ہی باری باری حکومت کرتے ہیں ملک کی تمام بڑی کمپنیوں میں ان کے بلواسطہ یا بلا واسطہ حصہ جات ہیں ان کا ماضی نہایت شرمناک ہے قانون ان پر بالکل بھی لاگو نہیں ہوتااور عدل و انصاف کی فراہمی بھی انہیں چندخاندانوں کی مرہون منت ہے ہمارے ہاں جرم کرنے پر جھگی یا جھونپڑوں میں رہنے والے شخص کو فوراً پھانسی کے احکامات جاری کردیے جاتے ہیں جبکہ کسی بااثر شخصیت کے جرم کرنے پر سارے کا سارا قانون ہی بدل دیا جاتا ہے ہماری پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی غریبوں ،بیواؤں،مظلوموں کے خلاف کی گئی کاروائی سے جانی جاتی ہے کسی بھی مسئلے پر وہ دو اڑھائی صد غریبوں مظلوموں سے فوراً جیلیں بھر دیتے ہیں مگر ایک طاقتور مجرم کے آگے یہی پولیس وسائل کی کمی کا بہانہ بنانے لگ جاتی ہے حالانکہ ملک کے ٹاپ خاندانوں کے اگر ایک دو افراد بھی پکڑ کر جیل میں ڈال دیے جائیں تو ساری قوم کو قانون کی حکمرانی کا پیغام بھیجا جاسکتا ہے لیکن ان خاندانوں کے آگے تو کسی کو آواز اٹھانے کی بھی جراٗت نہیں ہے سب کو اپنی اپنی نوکری کاخطرہ پڑجاتا ہے اور خطرہ ہو بھی کیسے نہیں یہاں پرتو ایک حکم پر چیف جسٹس تک کو نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور اپنا تابعدار فرماں بردار چیف جسٹس متعین کر دیا جاتاہے جب ایسی صورتحال ہو کسی آئی جی یاڈی آئی جی کی کیا جراٗت کہ وہ حکمرانوں کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے بلکہ وہ تو کوشش کرتے ہیں کہ ناصرف حکمران بلکہ اپوزیشن بھی ان سے خوش رہے کیونکہ اگلی باری اپوزیشن کی ہوتی ہے اور پھراپوزیشن کے بر سرا قتدار آنے پر ان کو اپنی اپنی تابعداریوں کے ثبوت پیش کیے جاتے ہیں تاکہ ان کو فرمانبرداری کا صلہ ترقی کی صورت میں ملے جب تک ہمارے اعلیٰ افسران ٹھیک نہیں ہوتے تب تک عام آدمی کی یوں ہی تذلیل ہوتی رہے گی اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بڑوں کے جرائم کو چھپانے کی خاطر عام آدمیوں سے جیلیں بھرتے رہیں گے ہمارے حکمرانوں کی مجرمانہ سرگرمیوں ،غیر اخلاقی حرکتوں، کرپشن کے کارناموں ،عدالتوں کی حکم عدولیوں، اداروں کی تباہیوں، قانون کے نفاذ کی ناکامیوں، عدل و انصاف کی عدم فراہمیوں ،غیروں کی غلامیوں ،خواتین کی بے حرمتیوں اورمظلوموں پر ظلم کی سزا کا حق دار صرف وصرف عام آ دمی کوہی تصور کیا جاتا رہے گا ہمارے حکمران نہ تو کسی عدالت کے آگے جوابدہ ہیں اور نہ ہی کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اور عجب بات دیکھئے کہ وہ اسی عام آدمی کا نام استعمال کر کے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں اور عدالتوں کی حکم عدولی کرتے ہیں ہمارے حکمرانوں پر ہزاروں کے حساب سے مقدمات قائم ہیں مگر ان کے خلاف کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے جبکہ ہمارے لاکھوں عام آدمی بغیر ثبوتوں کے اور حتیٰ کہ بغیر کسی جرم کے جیلوں میں بند ہیں کسی بھی پالیسی کا اطلاق سب سے پہلے بے سہارا اور مظلوم انسان پر ہوتاہے وہ پولیس جو کبھی نظر نہیں آتی کسی بھی وی آئی پی شخصیت کی آمد کے موقع پر سارے شہر میں پھیل جاتی ہے عام آدمی کم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کارزیادہ نظر آتے ہیں اور یہی حکمران اپنے جلسوں میں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ پولیس کے ملازمین کی تعداد کم ہے اسی لیے وہ انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں عام آدمی اگر پولیس اسٹیشن بھی چلا جائے تو وہاں کے افسران غائب ہوتے ہیں اس کے برعکس ہمارے حکمران اگر سو بھی رہے ہوں تو سینکڑوں کی تعداد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاران کی حفاظت کیلئے جاگ رہے ہوتے ہیں جب تک ہم اپنے عدل و انصاف کی فراہمی کو عام آدمی تک نہیں پہنچائیں گے تب تک ہم دشمن قرار دیے جانے والے ممالک میں جانے کو بے چین رہیں گے جب تک قانون کی تلواریں حکمرانوں کی میانوں سے نکل کر ان کے سروں پر نہیں منڈلائیں گی تب تک ملک پر قانون کی حکمرانی ممکن نہیں ہوسکتی قانون و عدل کو تو ہم حکمرانوں کے چنگل سے آزاد نہیں کرواسکتے ہیں مگر ہم ان حکمرانوں کے انتخاب میں تو مکمل بااختیار ہیں ہم ووٹ دیتے وقت یہ خیال کر سکتے ہیں کہ ہم جس کو ووٹ دیتے ہیں اسکے قانونی ریکارڈ کو مد نظر رکھیں اس کی تعلیمی قابلیت کو مد نظر رکھیں اس کے مجرمانہ ریکارڈ کو مد نظر رکھیں او ر اس کے عا م آدمی سے تعلق کے طریقہ کار کو مد نظر رکھیں انتخابات میں جب اپ سیٹ ہوتے ہیں تو وہ بھی عام آدمی کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں اب عام آدمی کو اپنی حیثیت جان لینی چاہیے اس کو اپنی طاقت کا علم ہوجانا چاہیے اس کے منتخب کیے ہوئے حکمران امریکہ ،یورپ ،عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اسی عام آدمی سے ڈراتے ہیں اور اپوزیشن والے بھی اسی عام آدمی کے لانگ مارچ کی دھمکی دیتے ہیں اب پھر عام آدمی کی باری آرہی ہے یہی وہ وقت ہے جب عام آدمی نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگلی باری پانچ سال بعد آنی ہے لہٰذاموقع ضائع نہ ہونے پائے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں