آصف شاہ
پاکستان میں پولیس مقابلے اکثر میڈیا کی وجہ سے عوامی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں یہ واقعات بظاہر پولیس کی جانب سے جرائم کے خلاف کامیاب کارروائی قرار دیے جاتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ آیا ایسے اقدامات قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں یا نہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ 18 اگست 2025 کو ٹیکسلا میں پیش آیا جس میں پنجاب کا مطلوب ترین ملزم عامر شاہ CCDسےمقابلے میں مارا گیا عامر شاہ آخر کریمنل عامر شاہ کیوں بنا ؟
لاابالی طبعیت کا حامل یہ جوان پاکستانی دو اداروں رینجر اور ایئر فورس کا حصہ بنا لیکن اداروں کا ڈسپلن اسے قید نہ رکھ سکا اور وہ بھگوڑا ہوگیا
عامر شاہ کا تعلق پنجاب کے ان مجرموں میں سے تھا جنہیں پولیس نے ’’موسٹ وانٹڈ‘‘ فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔ اس کے خلاف درجنوں مقدمات درج تھے جن میں انسدادِ منشیات فورس (ANF) کے افسران کے قتل، راولپنڈی کے علاقے جاتلی میں تین قتل، اور سرگودھا میں تین دیگر قتل کے سنگین مقدمات شامل تھے۔
زرائع دعویدار ہیں یہ تو وہ جرائم ہیں جو آن ریکارڈ تھے لیکن اس کے علاوہ وہ کئی درجن ایسی وارداتوں میں ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ ملوث تھا وہ عرصہ دراز سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت سے بچتا رہا اور پولیس کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا تھا
برا ہو ٹک ٹاک کا جہاں آئے روز اداروں کو دؑھمکیاں اور تھانے آڑانے کی باتیں اسکے فالورز میں اضافے کا سبب ضرور بنی لیکن اسے موت کی طرف دھکیلنے کا سبب بھی بن گیا
عامر شاہ کے جرائم کی ابتدا ایک ذاتی دشمنی سے ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نے سب سے پہلے عروج شاہ نامی شخص کو قتل کیا۔ یہ واردات اس کے مجرمانہ سفر کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔ ایک قتل کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا، یوں یہ سلسلہ چل نکلا اور وہ پولیس کی نظر میں اشتہاری مجرم بن گیا۔
مقامی دشمنیوں اور ذاتی جھگڑوں نے اسے مزید سنگین جرائم کی طرف دھکیل دیا۔ رفتہ رفتہ اس نے تشدد کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیا اور ایک عام تنازع اسے خطرناک ترین ملزم میں بدل گیا بہت سے لوگ اس بات کے دعویدار ہیں کہ عامر شاہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے اداروں سے ٹکرایا لیکن اس بھیانک سفر کی ابتدا عامر شاہ نے عروج کے قتل سے شروع کی جسکااختتام ایک پولیس مقابلے پرجاکرہوا
زرائع دعویدار ہیں کہ 18 اگست کو کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (CCD) کو اطلاع ملی کہ عامر شاہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ٹیکسلا کے نواح میں موجود ہے۔ پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی، جس پر انہوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی کارروائی میں عامر شاہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ اس کا ساتھی فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ سینئر افسران نے موقع پر پہنچ کر کارروائی کی نگرانی کی اور پولیس ٹیم کی بہادری کو سراہا لیکن راقم کے زرائع یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ اسے خیبر پختونخواہ کے ایک سیاسی کے ڈیرے سے اٹھایا گیا اور بعد ازاں راولپنڈی کے نزدیک تھانہ ٹیکسلا کی حدود میں پارکردیا گیا
اس واقعہ کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا جہاں ایک طرف محکمہ اسے اپنی بڑی کامیابی قراردے رہا ہے کیونکہ ایک خطرناک مجرم سے نجات ملی تو دوسری طرف کچھ حلقوں کا اس بات پر زورہے کہ ماورائے عدالت قتل انصاف کے عمل کو کمزور کرتے ہیں قانون کے مطابق ہر ملزم کو منصفانہ ٹرائل کا حق حاصل ہے، مگر پولیس مقابلوں میں اکثر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آیا واقعی پولیس نے گرفتاری کی کوشش کی تھی یا فوری طور پر مقابلہ کے نام پر ملزم پار کردیا گیا
عامر شاہ کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ اس نے اپنی جرائم کی زندگی میں کبھی ڈکیتی نہ کی زرائع اس بات کے بھی دعویدار ہیں کہ وہ اکثر افسردہ ہوکر دھاڑیں مار مار کررویا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ مفروری بہت مشکل اور بری چیز ہے اور بھی بہت سے پہلو اسکی زندگی کے پوشیدہ ہیں جنہیں شائید اسکے ساتھ ہی دفن ہوجانا چاہیے
لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اسکا انجام ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آخر کوئی فرد یہ راستہ کیوں اختیار کرتا ہے۔ اس کے پیچھے کئی عوامل ہو سکتے ہیں: غربت اور بے روزگاری، طاقت اور دبدبہ حاصل کرنے کی خواہش، منشیات و اسلحہ کے نیٹ ورکس میں شامل ہونا، اور انصاف کے نظام پر عدم اعتماد۔
جب ایک شخص یہ سمجھنے لگے کہ جرم سے طاقت اور تحفظ مل سکتا ہے اور سزا کے امکانات کم ہیں، تو وہ آسانی سے جرائم کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ عامر شاہ کی مثال واضح کرتی ہے کہ ایک ذاتی دشمنی سے شروع ہونے والا سفر کس طرح بڑے پیمانے پر جرائم اور بالآخر انجامِ کار موت تک لے جاتا ہے
یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ پاکستان کے عدالتی اور پولیس نظام کے لیے کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے۔ کیا پولیس کو ایسے مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کا حق ہے؟ یا ان کا مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے تاکہ عوامی اعتماد قانون کے عمل پر قائم رہے؟
اس میں شک نہیں کہ عامر شاہ جیسے لوگ معاشرے کے لیے خطرناک ضور ہوتے ہیں، لیکن ان کے خلاف کارروائی ہمیشہ قانون اور انصاف کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونی چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی اور نوجوان عامر شاہ جیسے راستے پر نہ چل سکےایسے ملزمان معاشرے کے لیے خطرناک ہوتے ہیں، لیکن ان کے خاتمے کا طریقہ کار ہمیشہ قانون اور انصاف کے دائرے میں ہونا چاہیے تاکہ معاشرتی نظام پر عوام کا اعتماد قائم رہے۔
