156

عالمی یوم خدمت خلق

ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)
drsajidkhakwani@gmail.com
حقوق اللہ،حقوق العباد اور حقوق النفس میں توازن کانام اسلام ہے۔اس دنیامیں ہر نظام کے اندر افراط و تفریط موجود ہے،کہیں حقوق اللہ موجود ہیں تو حقوق العباد اور حقوق النفس کافقدان ہے جیسے مذہب عیسائیت۔کہیں حقوق النفس اداکیے جاتے ہیں تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ترک کردیاجاتاہے جیسے یہودیت اور ہندومت اور کہیں حقو ق العبادپر زور دیاجاتاہے تو حقوق اللہ اور حقوق النفس سے عام بے رغبتی ہے جیسے سیکولر مغربی تہذیب ہے وغیرہ۔ان سب کے مقابلے میں انبیاء علیھم السلام نے ایک بڑا ہی متوازن اور عدل و احسان سے بھرپور نظام دیاہے جس کو قرآن مجیدنے ”دین اسلام“ کے نام سے یاد کیاہے۔اس نظام میں ہر تین حقوق کے درمیان بہترین توازن قائم کیاگیاہے۔اگرچہ گزشتہ مذاہب بھی انبیاء علیھم السلام کے لائے ہوئے ہی ہیں لیکن ان میں جہاں جہاں انسان نے اپنی دانست استعمال کر کے تو تحریف کی کوشش کی ہے وہیں پر یہ نظام عدم توازن کا شکار ہوگئے ہیں اوربگڑتے بگڑتے آج یہ صورتحال ہو گئی کہ ان تعلیمات کی اصل شکل ہی مسخ ہوکر رہ گئی ہے جبکہ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جوآج تک ہر طرح کی تحریف سے مطلقاََپاک ہے تاقیامت محفوظ و مامو ن رہے گی۔”خدمت خلق“اسلام کا وہ باب ہے جس کے ڈانڈے حقوق العباد سے ملتے ہیں۔اگر کہا جائے کہ انبیاء کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ ”خالق براستہ مخلوق“تواس میں ذرہ برابربھی مبالغہ نہ ہوگا۔خدمت خلق کی کئی اقسام ہوسکتی ہیں لیکن تعلیم کے ذریعے عقائد کی درستگی سب سے بڑی خدمت ہے،اس لیے کہ تصورات کے واضع اور پختہ ہونے سے ہی تو اعمال کی درست عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔ایک خدا کے پجاری میں اور خواہش نفس کے پجاری میں بعدالشرقین، مشرق و مغرب کا فرق ہوتا ہے۔انبیاء علیھم السلام نے انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہ کی کہ انہیں تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں انسان بنایا،نیکی اوربدی کافرق ذہن نشین کراکے نیکی کی تلقین کی،پتھروں اوردرختوں کو پوجنے والوں کو ایک الہ کے آگے سر بسجودکیا،احساس ذمہ داری کی خاطر انہیں آخرت کی حقیقت سے آگاہ کیا،للھیت کی خاطر انہیں انبیاء علیھم السلام کے طریقوں کا پیروکارکیا کہ جن سے بہتر لوگ اس زمین کے سینے پر کبھی وارد نہیں ہوئے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوں گے۔ان عقائد کی درستگی کے نتیجے میں ایک ایسا گروہ تیار ہوا جس نے بالآخربے لوث ہو کر انسانیت کی خدمت کی اور ایسی ایسی زندہ روایات چھوڑیں کہ آج بھی انسانیت ان کے تذکروں سے آسودگی،ٹھنڈک اور مٹھاس پاتی ہے اور آج بھی انکے دروس خدمت تازہ وخوشبودار ہیں اور آج بھی وہ ہستیاں کل انسانیت کے لیے میارہ نور سے کم نہیں ہیں۔خدمت خلق کے تمام دروس کا منبع حضرات انبیاء کرام علیھم السلام ہیں،جیسے حضرت آدم علیہ السلام سے نسل انسانیت کاآغازکیااور اولین انسانوں کو معرفت الہی عطا کی،حضرت ادریس علیہ السلام نے قلم سے لکھنے کا آغاز فرمایااور تعلیم و تعلم میں آلہ قلم کے باعث آج تک ابلاغ و صحافت کی خدمت جاری ہے،حضرت موسی علیہ السلام نے سسکتی انسانیت کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی جس کے باعث آج تک ہر قوم آزادی کو اپنا حق اور آزادی کے دفاع کو اپنا فرض سمجھتی ہے،حضرت داؤد علیہ السلام نے انسانیت کو لوہے کی تکنالوجی سے آگاہ کیا جس سے آج تک دنیاکاکاروبار معیشیت گرم ہے،اور حضرت عیسی علیہ السلام نے فن طب کی بنیاد رکھی جس کے باعث ایک دنیاہے جو آج تک شفایاب ہوتی چلی جارہی ہے اور محسن انسانیت ﷺ نے قبیلہ بنی نوع انسان میں درس انسانیت کا آغاز کیا اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ ہر سبق کا آغاز اسکے بانی سے کیاجاتاہے ”ایٹم“جیسے سبق کا آغاز بوہر سے کیاجاتا ہے جبکہ بوہر کی بتائی ہوئی بات کہ ایٹم مادہ کا سب سے چھوٹاذرہ ہے، غلط ثابت ہوچکی ہے،پاکستان کے سبق کا آغازعلامہ محمداقبال ؒاور قائداعظم ؒسے ہوتا ہے جبکہ انسانیت کے سبق سے قبل بانی انسانیت ﷺ کو بھلادیاجاتاہے۔انبیاء علیھم السلام کے بعد ایک ہزارسالوں تک مسلمانوں نے اس عالم انسانیت کی خدمت کی،روم اوریونان کے جمود کا شکار علم طبعیات و کیمیاکو مسلمانوں کے ہاتھوں تجدید حیات میسر آئی،سود اور غلامی جیسی قباحتوں کا خاتمہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہوا چنانچہ ایک ہزارسالہ طویل دورمیں مسلمانوں نے کسی قوم کو اپنا تہذیبی،تعلیمی،معاشی یاتعلیمی غلام نہیں بنایاجبکہ مسلمانوں کے بعد سے آج تک سیکولرمغربی تہذیب نے دنیاکی اقوام کو ناک تک غلامی کی زنجیروں میں بری طرح جکڑ رکھاہے۔بے لوث خدمت خلق دراصل ابنیاء علیھم السلام کا دیاہواسبق ہے،حضرت آدم علیہ السلام سے محسن انسانیت ﷺ تک ہر نبی نے اپنی قوم سے کوئی معاوضہ نہیں چاہا اور بغیرکسی بدلے کہ ان کی خدمت کی ہے۔قرآ ن مجیدنے جگہ جگہ انبیاء علیھم السلام کایہ جملہ نقل کیاہے کہ”وَ مَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۲:۷۲۱)“ترجمہ:”میں تم سے اس(خدمت)کاکوئی بدلہ نہیں مانگتا،میرااجرتومیرے رب کے ذمے ہے“۔خدمت خلق میں سب سے پہلا درجہ والدین کا ہے،قرآن مجید نے والدین کی خدمت کی بہت تلقین کی ہے اور انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے یہ واضع ہوتاہے کہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے بعد والدین ہی انسان کے لیے سب سے بڑے خیرخواہ ہوتے ہیں اور وہی انسان کی خدمت کے حق دار ہوتے ہیں۔آسمانی تعلیمات میں یہ بات تحریر ہے کہ جب والدین بوڑھے ہوجائیں تو ان کے آگے ”اف“بھی نہ کرو یعنی اپنی تکلیف کا اظہار بھی نہ کرو اور ان کے سامنے جھکے رہواور ان سے نرمی سے بات کرو انہیں جھڑکو نہیں یہاں تک کہ بعض کتب میں لکھاہے کہ دوران نماز اگر والدین میں سے کوئی بلالے تو اپنی نماز توڑ کر ان کی بات سنی جائے۔والدین کے بعدذوی القربی، یعنی انکے والدین،پھر بہن بھائی اور والدین کے بہن بھائی اور پھر دیگر رشتہ دار جن میں عزیزواقربا،رضاعی وسسرالی اورخاندان و قبیلہ کے دیگر افراد شامل ہیں۔ان سب کی خدمت کے لیے اللہ تعالی نے ”صلہ رحمی“کی اصطلاح استعمال کی ہے۔”صلہ“کا مطلب جوڑناہے اور”رحم“ماں کے پیٹ کو کہتے ہیں،رشتے سب ماں کے پیٹ سے ہی تعلق رکھتے ہیں اس لیے قرآن و سنت سے صلہ رحمی پر بہت زور دیاہے اورقطع رحمی یعنی رشتہ داروں سے تعلقات کوختم کرنے کو گناہ کبیرہ قرار دیاہے۔خدمت خلق میں اگلا بہت اہم درجہ پڑوسی کا ہے۔ ”خدمت خلق“ میں خلق کے اندر غیر انسان بھی داخل ہیں،محسن انسانیت ﷺ ایک بار ایک یہودی کے سامنے سے گزرے اس نے ایک ہرنی کواپنے جال میں پھانساہواتھا،آپ ﷺ نے اسے کہاکہ اس ہرنی کو آزاد کردے یہ اپنے بچوں کو دودھ پلاکر لوٹ آئے گی۔اس یہودی نے بڑا ہی بازاری جواب دیا کہ پھر اسکی جگہ جال میں آپ ﷺ بیٹھ جاؤ!،محسن انسانیت ﷺ اس پر راضی ہوگئے اور آسمان نے دیکھا کہ ہرنی کی جگہ خاتم النبیین ﷺجال میں بیٹھے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں وہ ہرنی اپنے بچوں سمیت وہاں پہنچ گئی،اس پر وہ یہودی مسلمان ہوگیااور اور جانور کو بھی آزاد کر دیا،نبی ﷺ کے ہاتھوں آزادی حاصل کر نے والی ہر نی خوشی کے مارے اپنے پچھلے دونوں پاؤں پر ناچتی ہوئی جنگل میں سدھار گئی۔ مہمان و مسافرڈھونڈکر لانے والے بچوں کو انعامات سے نوازا جاتاتھا۔دسترخوان پر آنے والے کی اس قدر عزت افزائی کی جاتی تھی کہ وہ اپنے آپ کو بھکاری کی بجائے ایک معزز مہمان تصورکرتاتھا،گھرکا سربراہ خودسے اس کے ہاتھ دھلواتاتھا آنے والے کواپنے جوتے تک اٹھانے نہیں پڑتے تھے اور بڑے اعلی اعلی پکوان انہیں کھانے کو پیش کیے جاتے خاص طورپر رمضان المبارک میں تویہ سلسلہ بہت زیادہ بڑھ جاتاتھا۔سال بھرمیں خدمت خلق کے نام پر ایک دن مناکر انسانیت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا سیکولرازم اب بہت جلد اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔مشرق سے مغرب تک پوری دنیامیں عام طورپراب اس سرمایادارانہ نظام کے خلاف ایک تحریک نفرت جاگ اٹھی ہے اور امت مسلمہ خاص طورپر اپنے ایام گزشتہ کے بل بوتے پرتاریخ آئندہ رقم کرنے کے لیے جادہ پیما ہے،بس کچھ ہی دن ہیں کہ سوشل ازم کی طرح یہ مداری بھی اپناتماشا دکھاکر گیاچاہتاہے اور اس کرہ ارض کا مستبل محسن انسانیتﷺ کی خدمت خلق کی جملہ تعلیمات سے ہی وابسطہ ہے،انشاء اللہ تعالی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں