112

عافیہ صدیقی بنیادی حقوق سے محروم

اسلام ایک پرامن مذہب ہے اسلام سراپا رحمت ہے اسلام ہر کسی کا خیال رکھنے کادرس دیتاہے چاہے وہ مرد وعورت ھو،آزاد وغلام ہو،چھوٹا ہویا بڑاہو،قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والاہو یا پھرکوئی آزادی کی نعمت سے مالا مال انسان ہو،ماں باپ ہوں یا اولاد خاندان ہوں، مسلم ہوں یاکوئی غیر مسلم ہو، حتی کہ اسلام چرند پرند کے بھی حقوق بیان کرتاہے پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اسلام آزادی کی نعمت سے محروم قیدی انسانوں کہ حقوق بھول جاتا ہر انسان ماں کہ پیٹ سے آزاد پیدا ہوتا ہے پھرمعاشرے کی تلخیاں،مشکوک،غیرقانونی سرگرمیاں اسے قیدخانہ تک پہنچا دیتی ہیں جہاں وہ اپنے کئے پر پچھتاتا ہے اپنے ماضی پر نادم ہوتا ہے جس کے صلہ میں اسے پابند سلاسل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں وہاں سب سے پہلے اسے عدالت میں پیش کرکے اس پرلگے الزامات ثابت کئے جاتے ہیں اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کاموقع فراہم کیاجاتاہے جہاں اسے پابند سلاسل کرنے والے موجودہیں ان کو جرم کے ساتھ ساتھ انسان،انسانیت بھی دیکھناہوتاہے کیوں کہ نفرت جرم سے ھوتی ہے انسان سے نہیں پھر قیدیوں سے حسن سلوک،نرم رویہ اور انکی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنے کاخصوصی درس وحکم بھی دیاگیاہے آج بھی دنیا بھرمیں انسانوں کی تقسیم وتفریق میں حقوق انسانی میں غفلت ولاپرواہی برتی جارہی ہے بلخصوص عالمی سطح پر انسانی حقوق کا بلندوبالادعویٰ کرنے والے حقوق کے علمبردار،سب سے بڑے نام نہاد ترجمان،سب سے زیادہ انسانی حقوق کی حق تلفی کررہے ہیں بلخصوص خواتین کے معاملہ میں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ خواتین کے حقوق کی صرف بات کرتے ہیں بلندو بالا دعوے کرتے ہیں وہ خواتین کا نام استعمال کرتے ہیں یہ ان کیلئے کافی ہے جدوجہدکی بات توکرتے ہیں لیکن حقیقی جدوجہدمیں انکاکردار بلکل صفر ہے وہ بلندوبالا دعویٰ توکرتے ہیں لیکن وہ اپنے دعوی میں سنجیدہ اورسچے نہیں ہیں کیوں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی قانون میں یہ بات ہرگز درج نہیں ناہی یہ بات کہیں رائج ہے کہ خاتون کو مرد اہلکار ذلت آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے گرفتارکریں اور ظلم یہ بھی یہ اسکے ساتھ کمسن بچے خاص کر معصوم کمسن چند ماہ کے بچے کوبھی حراست میں لے لیاجائے بلکل یہی حال فخر پاکستان،ذہین فطین خوش طبع،حافظ قرآن،باپرہ خاتون، اخلاق و کردار کے لحاظ سے باکمال ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیساتھ کیاگیا عافیہ صدیقی پر الزام عائد کیا گیاکہ اس نے حملہ آور ھونے کی کوشش کی جبکہ اسکی سزا 86 برس سنائی گئی لیکن اس سے بھی بڑا ظلم اس بہن کیساتھ یہ کیاگیا کہ اس کو سزا سناتے وقت اس کے کمسن بچوں کو بھی قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں یہ سزا سنانے والے وہ ہیں جو انسانیت کا درس دوسروں کو دیتے ہیں جبکہ اس ظلم و جبر پر دنیاکہ کسی بھی ملک نے آواز بلند کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ناہی وہ نام نہاد عالمی تنظیمیں حرکت میں آئیں جو دن رات خواتین کہ حقوق کی بات کرتی ہیں جو پاکستان کی عام سادہ خواتین کو ورغلانے میں پیش پیش ہیں جو خواتین کے گھر کے کام،خاوند اور بچوں کی خدمت کو توہین آمیز قرار دیتی ہیں ان خواتین کا دعویٰ ہے کہ وہ خواتین کہ حقوق کی بات کرتی ہیں جبکہ وہ خواتین کی نہیں بلکہ عزت دار خواتین کو بیچ چوراہے لانے کی کوشش کر رہی ہیں یہاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بچوں سمیت جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیاگیا نا کسی نے آواز بلند کی اور ناھی کسی کو خواتین اور بچوں کی حقوق یاد آئے ناہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آہ و سسکیاں کسی کو نظرآئیں یہ سب ظلم اس لیئے بھی کیاگیا اورحقوق نظر
انداز کیے گئے کیونکہ عافیہ صدیقی مسلمان ھونے کے ساتھ ساتھ پردہ دار خاتون بھی ہے وہ حافظ قرآن بھی ہے وہ ڈاکٹر بھی ہے وہ مسلمانوں کادرد سمجھتے ھوئے مسلمانوں کیلئے اس صدی میں کچھ کرناچاہتی تھی وہ مسلمان کو کمزور نہیں دیکھنا چاہتی یہ سب اسکے عزائم کی فہرست ھے جسکی اسے سزا 86 برس بھگتنی پڑی لیکن افسوس اس بات پر بھی کہ ہم بحیثیت مسلمان اس طرف توجہ دینے سے غفلت برت رہے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم سب متحد ھوکر ایک زبان ھوکر جہاں تک ممکن ھو جس پلیٹ فارم سے بھی آوازبلند کرنے کی کوئی طاقت رکھتا ھو وہ اپنی جدوجہدکیساتھ ساتھ اپنی آوازضرور بلند کریتاکہ ہرکوئی اپنے حصہ کا چراغ روشن کرے کچھ تو اجالا ھوگا کچھ تو امید کی کرن پیدا ھوگی کچھ تو آس امید کی فضاء قائم ھوگی یہ سب اسی وقت ممکن ھے جب سب اپنی آواز کو ھر جگہ ھر پلیٹ فارم پر بلندکریں گئے اس مظلومہ کی داستان بہت دلخراش ھے ظلم وجبر کہ پہاڑ توڑے گئے اس پر اس کی اسکے مذہب کی اس کے سینے میں محفوظ ہونے والی لاریب کتاب کی توہین کی گئی یہ وہ مظلومہ ہے جسکا انتظار کرتے کرتے اسکی بوڑھی ضعیف العمر والدہ دنیاسے رخصت ھوگئی اپنی والدہ کاآخری دیدار اسکو نصیب نا ہوسکا،اپنی والدہ کی قبر بھی ابھی تک اسے دیکھنا نصیب ناھوسکی،20سال کے بعد اسکی بہن کو ملاقات کی اجازت ملی لیکن وہ ملاقات ایسی تھی جس میں دو بہنیں صرف ایک دوسرے کو دیکھ سکتی تھی چھو نہیں سکتی تھی اسکے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتی تھیں ایک دوسرے سے گلہ شکوہ نہیں کرسکتی تھی ایک دوسرے کو اپنے دکھ درد بیان نہیں کر سکتی تھی نا اپنی والدہ کی وفات کی خبر پہنچا سکیں اور نا ھی اسکیبچوں کی تصاویر اس مظلومہ قیدی ماں کو 20 سال کے بعد بھی دکھانے کی اجازت ملی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس وقت جیل میں بنیادی انسانی حقوق سے محروم، بے بسی کی زندگی گزار رہی ہیں انکی صحت وتندرستی بھی کچھ بہتر نہیں انکے بہن کے مطابق ان پر اب بھی تشدد کیا جارہاہے تشدد کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے دانت بھی ٹوٹ چکے ہیں جو ظلم اس بے بس خاتون پرکررہے ہیں وہ اس بات کو نا بھولیں کہ جب سے کائنات بنی ہے جتنے بھی ظالم لوگ آئے وہ اپنے عبرتناک انجام کو پہنچ گئے اللہ بھی ظالم کو معاف نہیں کرتا وہ ضرور گرفت کرتاھے پھر اللہ کی پکڑ کے بارے میں قرآن مجید کا فیصلہ ھے بے شک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں