شاہد جمیل منہاس /کہا جاتا ہے کہ غیر ارادی طور پر کوئی بھی انسان جو حرکات و سکنات ظاہر کرتا ہے اس کا وہی باطن ہوتا ہے۔ اگر کسی کو آزمانا مقصود ہو تو اسے کسی بات پر غصہ دلا کر معلوم کر لین کی وہ حقیقت میں کیا ہے۔ ہم نے اکثر دیکھا کہ کسی بھی انسان کو جب غصہ آتا ہے تو وہ یا تو پریشان ہو جاتا ہے یا اپنی زبان سے چند الفاظ بیان کر کے اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے۔ مثال کے طورپر یہ کہتا ہے کہ یار آپ زیادتی کر رہے ہیں یا چیخ چیخ کر غیر موزوں انداز میں چلائے گا یا بعض اوقات بعض انسان گالیاں تک شروع کردیتے ہیں۔ یہ سب وہ حقائق ہیں جن کو یہ کالم پڑھنے والا کوئی بھی شخص جھٹلا نہیں سکتا اور وہ اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہے۔ اگر آپ کبھی پاگل خانے جائیں تو معلوم ہوگا کہ کوئی پاگل ہنس رہا ہے، کوئی رو رہا ہے کوئی فرضی بائیک چلا رہا ہے اور کوئی رکشے کی آوازیں نکالتے ہوئے خود کو پجارو کا ڈرائیور سمجھ رہا ہے۔ کوئی ایسا بھی ہو گا جو خاموش تماشائی نظر آ ئے گا۔لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ سب ذہنی مریض ہمارے ہی بہن بھائی ہیں اور اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔اللہ بیماریاں اور تکالیف دے کر انسان کیلئے جنت کے راستے ہموار کرتا ہے۔ لہذا صحت مند انسانوں کو خوش فہمی میں جانے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تھوڑی سی پریشانی یا بیماری کی صورت میں انسان کا اصل روپ سامنے آتا ہے۔ سکون و آرام کی صورت میں تو ہر کوئی تحمل مزاج ہی نظر آئے گا ماسوائے چند انتہائی کم ظرف افراد کے، کہ جن کو دولت کی بہتات زمین پر پاؤں ر کھنے نہیں دیتی اور وہ خوشحالی کے لمحات میں بھی غصے اور تکبر کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہز اروں خوشحال افراد کو دولت کی بہتات کے باوجود خدا سے ڈرنے والا پایا گیا ہے۔ اور یہ ایمان کی سب سے بہترین منزل ہوتی ہے۔ کیونکہ دولت عموماً خود غرضی کی طرف لے جانے میں معاونت کرتی ہے۔ موجودہ دور میں ہم نے دیکھا کہ اس دولت یا ذر کے چکر میں بھائی آپس میں بھائی نہیں رہے اور اولاد نے والدین کو والدین ماننے سے انکار کیا اور اکثر والدین نے اولاد کو عاق کرکے اولاد ماننے سے انکار کیا۔ بہرحال یہ سب خوشحالیاں انسان کو مدہوش بنا دیتی ہیں۔ دولت کا نشہ اور غرور بذات خود ایک High Potonsy Tablet کانام ہے۔ جسے ہر کوئی ہضم نہیں کر سکتا۔ ان سب صورتوں میں انسان کے پوشیدہ امراض، نقائص یا خوبیا ں بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔مثال کے طور پر بیماری اور غربت کے دنوں میں انسان اللہ کے قریب ہوتا جاتا ہے اور جیسے ہی بیماری یا تنگدستی ختم یا کم ہوتی چلی جاتی ہے تو اس دور کا مجھ جیسا گنہگار انسان اللہ کی ذات سے دوری اختیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن کچھ حقیقت پسند اور اس دنیا کو واقعی عارضی زندگی سمجھنے والے افراد کے پاس جوں جوں دنیاوی خوشحالی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے وہ اللہ کے مزید قریب ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ان کو یقین محکم ہے کہ اُنہوں نے ایک دن یہ سب کچھ چھوڑ کر اللہ کی ذات کے روبرو ہونا ہے۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک نوجوان نے اخبار میں خبر لگوائی کہ میری دادی جن کی عمر 75 برس ہے ذہنی توازن خراب ہونے کی وجہ سے کچھ دنوں سے لا پتہ ہیں۔ہم گھر والے بہت پریشان ہیں کہ خدمت کے وقت وہ ہم سے جدا ہو گئی ہیں۔ اس خبرمیں ایک مزے کی اور احساس دلا دینے والی بات یہ تھی کہ ان کی دادی نام پوچھنے پر اپنا نام ”اللہ کا گھر“ بتاتی ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ دادی اماں بیماری کی حالت میں اپنا باطن نہ جاہتے ہوئے بھی ظاہر کر رہی ہیں کہ اس ان پڑھ مگر انسانیت کی زندہ مثال خاتون کو دنیا کے کسی گھر سے محبت نہیں ہے بلکہ اسے تو نہ جانے کب سے اللہ کے گھر کی چاہت نے تڑپا یا ہوا ہے اور اس بوڑھی ماں کے دل و دماغ میں اللہ کے گھر کو دیکھنے کی تڑپ بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ورنہ خدانخوستہ اگر کوئی بھی انسان اپنی زندگی میں گہنگار رہا ہو اور وہ ذہنی مرض کے عارضے میں مبتلا ہو جائے تو اپنی زبان سے ہو سکتا ہے وہ لغو خواہشات بیان کرناشروع کر دے جسے گھر والے بھی برداشت نہ کر سکیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ انسان کو بیماریوں، وباؤں اور پریشانیوں سے دور رکھے۔ اور اللہ ہی کے فضل اور رحمت سے ہمیں حوصلہ اور امید ملتی ہے۔یاد رہے کہ انسان کا باطن اُس کی زندگی کے دوران ظاہر بن کر ہی رہتا ہے۔
286