کوئی بھی قوم اپنے لیڈر سے پہچانی جاتی ہے۔ جو قوم جتنی جاہل ہوگی اس کا لیڈر اتنا ہی دولت مند اور طاقتور ہوگا۔ قوم کو نعروں پر لگا کر خود مال بنانے والے مروجہ سیاست کے کھلاڑی ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ ہر پارٹی کا ورکر میرا لیڈر زندہ باد تیرا لیڈر مردہ باد کے چکروں میں پڑا ہوا ہے۔ ایک گلی یا نالی پکی کروا کر وہ سمجھتا ہے گویا اس نے لال قلعہ فتح کرلیا ہے اور پھر اپنے قائد کی تعریف رطب اللسّان ہوجاتا ہے۔ اقبال کے شاہین کوئی نوکری بکتا ہے تو کوئی پختہ گلی یا نالی پر۔ بحیثیت مجموعی ہمیں شعور ہی نہیں کہ ہمارے نمائندے اسمبلیوں میں جاتے کیوں ہیں۔ کیا ان کا کام محض ٹرانس جینڈر بل پاس کرنا؟ ایف اے ٹی ایف سے نکلنے کے لیے ان کی ہر جائز ناجائز حکم ماننے کے لیے قانون سازی کرنا؟ یا پھر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ہی کرنا ہے یا قوم کے لیے بھی کچھ سوچنا ہوتا ہے؟ تحصیل گوجرخان وہ واحد تحصیل ہے جس کے باسیوں کے ساتھ اقتدار میں آنے والی تینوں پارٹیوں کے نمائندوں نے ہاتھ کردیا ہے۔ اس تحصیل کے مکینوں کے ساتھ دوبڑے وعدے کیے گئے: گوجرخان کو ضلع کا درجہ اور پوٹھوہار یونیورسٹی کی منظوری۔ گوجرخان ضلع بناؤ تحریک کا قیام عمل میں آیا اور ایک دستخطی مہم بھی چلی سید ندیم شاہ اس تحریک کے صدر تھے لیکن پھر جب وہ مسلم لیگ ن کو پیارے ہوئے تو یہ تحریک اپنی موت آپ مر گئی۔تحصیل گوجرخان ضلع کیوں نہ بن سکا، اس کی دیگر وجوہات میں سب سے بڑی وجہ یہاں کے ممبران اسمبلی راجہ پرویز اشرف سابق وزیر اعظم پاکستان، راجہ جاوید اخلاص سابق پارلیمانی سیکرٹری کا اس میں دلچسپی نہ لینا ہے۔ ہر دوعوام میں تو ضلع گوجرخان کی حمائیت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر انہوں نے اس کو درخور اعتنا سمجھا ہی نہیں بلکہ اپنی نجی محفلوں میں وہ اس کے خلاف باتیں بھی کرتے رہے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت سید ندیم شاہ کا مسلم لیگ ن میں شامل ہوتے ہی اپنی قیادت کے حکم پر ضلع گوجرخان کے لیے غیر فعّال ہوجانا ہے اور راجہ پرویز اشرف کا وزیر اعظم پاکستان رہنے کے باوجود گوجرخان کو ضلع بنانے کے لیے کوئی کوشش نہ کرنا ہے۔ اندرونی ذرائع اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں ”چونکہ راجہ پرویز اشرف اور راجہ جاوید اخلاص دونوں کی پراپرٹیز راولپنڈی اور اسلام آباد میں ہیں اس لیے گوجرخان ضلع بننے سے انہیں ذاتی طور پر نقصان ہوتا ہے اس لیے وہ اس کے خلاف ہیں کہ گوجرخان کو ضلع بنا دیا جائے۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کا تعلق ہے تو ان بے چاروں کی پارٹی کے اندر شنوائی ہے ہی نہیں‘ جن کی باتتحصیل گوجرخان کا اسسٹنٹ کمشنر نہیں مانتا پنجاب کا وزیر اعلیٰ کیا مانے گا۔موضع آہدی کے رہائشی رضوان احمداعلیٰ پائے کے سکالر ہیں انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی منظور ی سے بننے والے اضلاع اور تحصیل گوجرخان کا بڑی تحقیق کے بعد موازنہ پیش کیا ہے جو درج ذیل ہے:36 یونین کونسلز پر مشتمل تحصیل گوجر خان کی آبادی 2017 کے مطابق 6 لاکھ 78 ہزار پانچ سو تین افراد جبکہ اب 8 لاکھ کے قریب ہے، تحصیل گوجر خان میں تقریباً 381 گاؤں ہیں جبکہ مقابلتاً نئے بننے والے اضلاع وزیر آباد میں 143 اور ضلع تلہ گنگ میں 140 دیہات ہیں۔ضلع تلہ گنگ میں 23 یو نین کونسلز آبادی 4 لاکھ، جبکہ ضلع مری میں ڈیڑھ درجن سے بھی کم یونین کونسلز اور آبادی 2 لاکھ 33 ہزار ہے) گوجرخان کے مشرق میں آزاد کشمیر کا ضلع میرپور اور منگلا ڈیم واقع ہیں، جنوب مشرق میں ضلع جہلم، شمال میں تحصیل کہوٹہ، شمال مغرب میں تحصیل کلرسیداں اور راولپنڈی، جنوب مغرب اور مغرب میں ضلع چکوال واقع ہے، یہ سطح سمندر سے 1512 فٹ بلند ہے۔گوجرخان شہر اس تحصیل کا صدرمقام اور ریلوے سٹیشن ہے، جو اسلام آباد سے 57 کلومیٹر اور لاہور سے 250 کلومیٹر مین جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ یہ خطہ پوٹھوہار کا دل سمجھا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کا اہم ترین پوٹھوہاری لہجہ گوجرخان کے باسیوں کا ہی تصور کیا جاتا ہے۔تحصیل گوجر خان کی یونین کونسلز مندرجہ ذیل ہیں۔آہدی، بیول، نور دولال، بھڈانہ، چنگا بنگیال، دولتالہ 1، دولتالہ 2، دیوی، گلیانہ، کھنگریلہ، جنڈ مہلو، جرموٹ کلاں، جیرو رتیال، جھنگی جلال، جاتلی، جھونگل، کلیام اعوان، کنیٹ خلیل، کرنب الیاس، کونتریلہ، کری دولال، مندرہ، منگھوٹ، منکیالہ مسلم، مطوعہ، موہڑہ نوری، نڑالی، پنجگراں کلاں، قاضیاں، راماں، ساہنگ، سوئی چیمیاں، سکھو، سیدکسراں، تھاتھی، اسلام پورہ جبر،گوجرخان کو جی ٹی روڈ کی سب سے بڑی تحصیل شمار کیا جاتا ہے، یہ 1466 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے، جبکہ نئے بننے والے ضلع مری کا رقبہ 434 مربع کلومیٹر ہے، تحصیل گوجر خان معدنیات سے
مالامال ہے، آہدی مستالہ، ڈھونگ، مسہ کسوال، اور ٹوبرا سے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر عرصہ دراز سے نکالے جا رہے ہیں تاہم اس کے ثمرات سے اہل علاقہ محروم ہیں اور یہ تیل راولپنڈی کی اٹک ریفائنری سے صاف ہو کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق کراؤڈ آئل کی پاکستان میں سب سے زیادہ پروڈکشن آہدی آئل فیلڈ سے ہو رہی ہے۔ اس وقت آہدی کے چاروں اطراف میں 38 ویلز پروڈکشن کر رہے ہیں۔(رضوان احمد)کثیر آبادی، بڑے رقبے، کثیر زرمبادلہ اور ریونیو، انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ، دفاع سمیت ہر میدان میں اعلیٰ ترین خدمات انجام دینے اورہر اعتبار سے ضلع کی خصوصیات رکھنے کے باوجود ہمارے منتخب نمائندے گوجرخان کے ضلع بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں عوام سے کوئی سروکار نہیں۔ انہوں نے اپنے عوام کو گلی اور نالی کے چکر میں ڈال رکھا ہے یا پھر ”سروے کہانیاں“ سنا سنا کر عوام کو سلا رکھا ہے۔گوجرخان میں نہ تو کوئی یونیورسٹی ہے، نہ تمام سہولیات والا ہسپتال، کوئی ریفائنری ہے نہ ائیرپورٹ، کوئی موٹروے نہ میٹروسروس اورجہاں تک تعلق ہے ریلوے اسٹیشن کا تو اہم ٹرینیں نان سٹاپ گزر جاتی ہیں۔ ان اہم مسائل سے مجرمانہ چشم پوشی سے عوام غافل ہیں اور ”میرا راجہ زندہ باد تیرا راجہ مردہ باد“کے نعروں کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے کرنے والے کام ممبران اسمبلی کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو غیر فعال رکھنے پر تمام حکمران پارٹیاں یکسو ہیں کیونکہ بلدیاتی اداروں کی بحالی سے ان کی موروثی سیاست اورذاتی مفادات پر زد پڑتی ہے۔
231