صدقہ فطر احکام ومسائل

اسلام ایک پرامن کامل واکمل دین ہے دین اسلام پرامن ہونے کیساتھ ساتھ خیرخواہ،غم خوار،احساس رکھنے والا،ہمدردبھی ہے،اسلام غریب،مساکین، یتیم،بیوہ،بے سہارا، لوگوں کی مدد کرنے کی ناصرف ترغیب دیتاہے بلکہ مختلف مواقع پر ان غریب لوگوں کی مدد کرنے کی مختلف صورتیں پیداکرتاہے اورعملی طور پرمالدار لوگوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کاحکم بھی دیتاہے اورخرچ کرنیوالوں کی فضیلت بھی بیان کرتاہے اور اللہ کے نام پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو عبادت کااجروثواب بھی عطاء فرماتاہے اوراس کارخیرمیں نیکی کے کاموں کی فہرست میں اور غریب لوگوں کی مدد کرنے میں شامل لوگوں کیلئے جنت کی خوشخبری بھی سناتا ہے صدقہ،خیرات،زکوٰۃ،عشر،کے علاوہ،صدقہ فطرادا کرنے اورکسی بھی طرح سے غریب کی مالی مددکے ذریعہ سے ہرمسلمان اجروثواب حاصل کرکے اس نیکی کی صف میں شامل ہوسکتا ہے اسکی ناتوکوئی قیدہے اورناہی کوئی پابندی ان سب نیک کاموں کابنیادی مقصد مال ودولت اللہ کی راہ میں اللہ کے نام پرخرچ کرنامقصودہوتاہے لیکن ان کے خرچ کرنے اور احکامات میں فرق ہے جیساکہ زکوٰۃ کے خرچ کے لئے ایک خاص مقدار مقرر ہے اسکے خرچ کرنے والے کیلئے کچھ شرائط وضوابط بھی ہیں، زکوٰۃ مال نامی پرواجب ہوتی ہے مال نامی سے مراد،سونا،چاندی،نقدی،مال تجارت اورسائمہ جانور ہیں مذکورہ اموال میں سے کسی ایک کے نصاب تک مال پہنچ جائے یامختلف اموال موجود ہونیکی صورت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک نصاب پہنچ جائے اوروہ بنیادی ضروریات سے زائدہوں تو زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اورقمری مہینوں میں سے سال گزرنے پراسکی ادائیگی بھی واجب ہوتی ہے جبکہ صدقہ فطر میں ایسا نہیں ہے بلکہ صدقہ فطر ہر اس مسلمان پر واجب ہے جس کے پاس اتنا مال ہوکہ اس پر زکوٰۃ واجب ہویازکوٰۃ توواجب نہیں ضروری اسباب سے زائداتنی مالیت کاسامان اسکے پاس موجودہے جسکی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابرپہنچتی ہوتو اس صورت میں اس شخص پر عیدالفطر کے دن صدقہ فطر اداء کرناواجب ہوتاہے چاہے وہ مال تجارت کاہویا ناہوچاہے سال گزرا ہویاناہو اس صدقہ کو شروع میں صدقہ فطر کہتے ہیں صدقہ فطر اور زکوٰۃ الگ الگ مستقل مالی عبادات ہیں ان دونوں کے لئے الگ الگ نصاب مقرر ہے ایک کے اداء کرنے سے دوسرا اداء نہیں ہوگا بلکہ دوسرا اپنی جگہ برقرار رہے گاصدقہ فطر ہراس شخص پراوراسکی زیر کفالت نابالغ اولادکی طرف سے واجب ہے اگر عید سے پہلے کوئی بچہ بھی پیداہوگاتواسکی طرف سے بھی اداء کرناپڑے گا،جوبھی شخص عیدکے دن یعنی یکم شوال کی صبح صادق کے وقت ضرورت اصل یہ اور استعمال سے زائد اتنے سامان یامال کا مالک ہوجس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت یا اس سے زائدہو خواہ وہ مال نقدی،سونا،چاندی،مال تجارت کی صورت میں ہویاناہو اس طرح کہ مال پر سال گزرنابھی شرط نہیں صدقہ فطر عید کے دن فجرکے وقت سے ہی پہ صدقہ اس پر واجب ہوتاہے عیدکی نماز کیلئے جانے سے قبل صدقہِ فطر اداء کرناضروری ہے لیکن اگر کسی نے عیدکی نماز اداء کرلی اور پھر بھی صدقہ فطر اداء نہیں کیا تو اس عمل سے اس پرسے یہ صدقہ فطر ساقط نہیں ہوگابلکہ پھربھی اسے اداء کرنا پڑے گا البتہ جو فضیلت جو اجروثواب اسے اپنے وقت پر اداء پرحاصل ہوناتھااس سے یہ شخص محروم رہ جائیگااس لئے صدقہ فطر اداء کرتے ہوئے اس بات کومدنظررکھاجائے کہ اس میں بلاوجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے بلکہ عیدکے دن
کابھی انتظار نہیں کرناچاہیے کیوں کہ جس قدر ممکن ہو جلد ازجلد مستحق تک یہ پہنچ جاناچاہیے تاکہ بروقت اور عید سے قبل ہی صدقہ فطر مستحق افراد تک پہنچایاجائے تاکہ وہ بھی ان پیسوں سے ضروریات زندگی کی اشیاء خریدکر عیدکی حقیقی خوشی میں ہمارے ساتھ شامل ہوسکیں یہ تب ہی ممکن ہوگاجب رمضان المبارک میں ہی ہم صدقہ فطر ادا کریں گے جس سے غریب اور مستحق افراد اشیاء خوردونوش اور اپنے بچوں کیلئے کپڑے جوتے خریدسکیں گے اگر ہم عید والے دن ہی اداء کریں گے تو اس سے اس دن توکچھ بھی خریدناممکن نہیں جب خریدناممکن نہیں تو وہ عیدگاہ میں نئے کپڑوں کے ساتھ کیسے آسکیں گے جس طرح ہمارے گھروں میں نئی نئی چیزیں نئے نئے کھانے عید کی صبح تیار ہوتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے عید کہ دن نئے کپڑے پہن سکیں اور وہ حقیقی خوشی حاصل کریں اسی طرح ان غریبوں کہ بھی جذبات ہیں انکے بھی احساسات ہیں وہ بھی چاہتے ہیں کہ انکے گھروں میں چولہے جلیں کھانے پکیں انکے بچے بھی سال بعد نئے کپڑے پہن سکیں اسلام مختلف مواقع مختلف صورتیں پیداکرکہ غریب غربا مفلس مساکین ویتیم بے کس بے سہارا لوگوں کی مدد کرنے انکے ساتھ تعاون کرنے پرزوردیتاہے اورپھر مسلمانوں کو ان کو اپنی خوشی میں شامل کرنے کی ترغیب بھی دیتاہے خلق خدا کی خدمت،خلق خدا کی ضروریات پوری کرنیوالے کے بارے میں فرمایاجو شخص مخلوق خدا کی ضروریات پورا کرنے میں لگارہتاہے اللہ تعالیٰ اسکی ضروریات پریشانیاں غیب سے پوری اور دور کرتاہے اللہ رب العزت نے رمضان المبارک جیسامقدس بابرکت رحمتوں والاسعادتوں والا مہینہ عطاء فرمایااس میں نیکیوں کو کئی گنابڑھادیاگیاہے تو ہمیں بھی چاہیے ہم اس موقع سے اس ماہ مبارک سے فایدہ اٹھاتے ہوئے خوب مال اللہ کی راہ میں خرچ کریں غریب لوگوں کی مدد کریں مدارس مساجد اور انکے خادمین پر خرچ کریں اس سے دو فائدے ہوں گے ایک تو ہم رمضان المبارک میں خرچ کرنے کی وجہ سے اصلی اجروثواب سے کئی گنازیادہ اجروثواب حاصل کر کہ اللہ کے ہاں مقبول ہوگے جبکہ دوسرا فائدہ یہ ہوگاکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنیکی وجہ سے ہمارے مال و دولت میں اللہ بے پناہ برکت عطاء فرماتے ہوئے دنیامیں بھی واپس عطاء فرمائے گااور آخرت کا اجروثواب الگ سے ہوگا

اپنا تبصرہ بھیجیں