آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
ملکی سیاست میں عوامی شعور بیدار کرنے میں تحریک انصاف کا ایک اہم رول ہے جس سے انکار ممکن نہیں لیکن جب یہی شعور ان کے سامنے آیا تو اس کے لیڈران اس سے منہ چھپانے لگے الیکشن سے قبل عوام کو کہا کچھ اور گیا تھا لیکن عملی طور پر اس سے کوسوں دور نظر آتے ہیں چند دن قبل صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہوٹہ اور کلر کا دورہ کیا ی جس کا مقصد عوام کے مسائل کو سننا اور ان کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرنا تھے لیکن معاملات اس سے یکسر مختلف ہوئے اور وزیر محترمہ کو ہاتھوں کا چھالا بنا کر لایا گیا،اور ان کو صحافیوں سے بھی دور رکھا گیا عوام کو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا درس دینے والی تحریک انصاف کو جب عوام کے احتجاج نظر آیا تو ان کے ہاتھ پاوں پھول گئے،اس دورے کو آرگنائز کرنا یقیناًانتظامیہ کا کام تھا لیکن لیکن تحریک انصاف کی منتخب قیادت پیش پیش نظر آئی اور سیلفیوں پر زور رکھا گیا کیا اسی تبدیلی کا عوام سے وعدہ کیا گیا تھا اس حلقہ سے منتخب ایم این اے صداقت عباسی کو اپنا طرز سیاست بدلنا ہوگا وہ ہر اس کام کا کریڈت لیتے ہیں جس کے لیے نہ تو ان کی جانب سے فنڈز جاری ہوئے اور نہ ہی ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق ہوتا ہے سادہ سا سوال ہے کہ کیا صوبائی وزیر کے دورہ میں ایم این اے، سمیت تحریک انصاف کی پوری قیادت کا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا بنتا ہے گزشتہ ادوار میں چوہدری نثار علی خان اور شاہد خاقان عباسی کے کار خاصوں پر اس معاملہ پر تحریک انصاف کے لیڈران منشیؤں کے القاب سے نوازتے تھے لیکن اب یہ کام وہ بذات خود کرنے لگے ہیں، دوسری جانب تحریک انصاف کی سینئر قیادت اندرون خانہ کلر میں ہونے والے احتجاج کو پیپلز پارٹی سے جوڑتی نظر آتی ہے لیکن وہ کھل کر اس کا اظہار نہیں کرپارہے ہیں لیکن ان کی ذاتی محفلوں میں اس بات کاخوب چرچا ہے صوبائی وزیر صحت نے کہوٹہ اور کلر کی عوام کو کیا دیا اور کیا نہیں دیا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر صداقت عباسی BHUلوہدرہ کے 24گھنٹے والی سروس کے لیے ہی کوئی بات کر دیتے لوہدرہ کو 7/24گزشتہ دور حکومت میں ایکٹیو کیا گیا تھا لیکن سٹاف پورا ہونے کے باوجود تاحال اس کی منظوری نہ ہوسکی ہے یقیناًیہ صداقت عباسی اور ان کی منتخب کردہ ٹیم کی ہی نااہلی ہو سکتی ہے جس نے ان کو بریف نہیں کیا تحریک انصاف کی موجودہ قیادت اپنے سحیح راستے پر گامزن ہے،یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے اب ایک نظر صداقت عباسی کے گزشتہ ہفتہ قانو گو ساگری کے مختصر دورے کی جہاں انہوں نے مختلف سیاسی سماجی شخصیات کے گھر جا کر فاتحہ خوانی کی اور پنڈی پوسٹ آفس کو بھی رونق بخشی،جہاں ان سے متعدد سوالات کیے گئے ایک اہم ایشو جو کہ کلر سیداں تجاوزات کے حوالہ سے تھا جس پر منتخب نمائندے کا حیران کن جواب سن کر میں زاتی طور پر سن ہوگیا کہ کلر سیداں میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کی مکمل صوابدیدمیری بنائی ہوئی کمیٹیوں کی ہے مجھے کیا ضروت ہے کہ میں ایسا کام کر کے لوگوں کی باتیں سنو اب سوال یہ ہے کہ کیا کمیٹیاں اتنی پاور فل ہیں کہ ان کی نشاندہی پر متعلقہ ادارے آپریشن کلین اپ کریں گے اوراگر وہ بااختیار ہیں تو ان کی قانونی حثیت کیا ہے اور کیا وہ اتنا بڑا کام کر سکتی ہیں یقیناًاس کا جواب نہ میں ہوگا مجھے ذاتی طور پرصداقت عباسی سے اس جواب کی توقع نہ تھی،اگر آپ کو قبضہ مافیاء پر ہاتھ ڈالنے سے خوف آتا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کام مشکل ہے اور کسی اور کندھے پر بندوق رکھ کر چلانی ہے تو یقنیا آپ کو اس حلقہ کی عوام کو نمائندگی کرنے کا کوئی حق نہیں آپ کو اپن طرز سیاست بدلنا ہوگا آپ عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور ان کے مسائل کو حل کرنا یقیناًآپ کا اور آپ کی منتخب حکومت کا کام ہے گوکہ کہ بحثٰت عوام ہم مانتے ہیں کہ مشکلات کا دور ہے لیکن عوام کے درد سر بنے ہوئے تھانہ اور پٹواری کلچر سے ہی نجات دلا دیں بہت سے ایسے موضعات ہیں جن کے پٹواری اڈیالہ روڈ پر براجمان ہیں عوام کو ایک چھوٹے سے کام کے لیے خوار ہونا پرتا ہے
199