131

صحافت کا معیار اور کردار /چوہدری محمد اشفاق

صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے جس کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ ملک میں توازن کو برقرار رکھے اگر یہ چوتھا ستون نہ ہو تو ہر طرف جنگل کا قانون نظر آئے یہ میڈیا ہی ہے جس کے خوف سے سرکاری ادارے سرکاری اہلکار کوئی تھوڑی بہت کسر باقی

چھوڑ دیتے ہیں میڈیا ہی کی وجہ سے کرپشن کے کیس سامنے آتے ہیں صحافت ہی کی وجہ سے حکمران طبقہ ،بااختیار لوگ ،مغرور اور ظالم افراد اپنی من مانی کرنے سے ڈرتے ہیں بصورت دیگر حالات ایسے ہو جائیں کہ مظلو م چھپتے پھریں اور کہیں بھی ان کی کوئی داد رسی نہ کرے صحافت کا شعبہ عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ان کو انصاف کی فراہمی تک کا کردار ادا کرتا ہے عوامی مسائل جو کسی بھی طرح حل نہیں ہو رہے ہوتے ہیں ان کو اجاگر کر کے آواز حکمرانوں کے کانوں تک پہنچاتا ہے اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد واقعی قابل تحسین ہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور عام آدمی کو ظلم و زیادتی سے بچانے کے لیے خود برے لوگوں سے ٹکرا جاتے ہیں بے شمار صحافی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں اور کئی اپنی جانوں تک کا نذرانہ بھی پیش کر چکے ہیں ایسے لوگ یقیناً خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ جو خود تنگ ہو کر دوسروں کی آسانیوں کیلئے تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں اور میں اس بات پر حیران ہوں کہ دیہی علاقوں میں ایک صحافی کو جب کہیں سے کوئی خبر حاصل ہوتی ہے تو وہ سب سے پہلے اس کو لکھتا ہے اور پھر اپنے پاس سے خرچہ کر کے اس کو کمپوز کر واتا ہے اور پھر کسی اخبار میں بھیجتا ہے حتی کہ وہ رات کو چین سے سو نہیں سکتا کہ شاید اس نے جو خبر بھیجی ہے وہ پتہ نہیں شائع بھی ہو گی یا نہیں اور صبح ہوتے ہی وہ اس شخص کو آگاہ بھی کرتا ہے کہ آپ کی خبر فلاں اخبار میں شائع ہو گئی ہے بعض اوقات اخبار بھی اپنے پلے سے خرید کر متعلقہ لوگوں تک پہنچانا پڑتا ہے ان تمام باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صحافت بہت مشکل شعبہ ہے اس میں صرف وہی لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس کو نیکی سمجھیں گے جن کے دلوں میں خدا خوف موجود ہو میرے خیال میں صحافت کے معیار پر پورا اترنے کے لیے زیادہ پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ اس شعبہ سے تعلق رکھنے والا شخص نوسر باز نہ ہو وہ کسی کو بلیک میل کرنے سے کتراتا ہو اس کی صحافت پر آس پاس کے افرا دخوشی محسوس کرتے ہوں صحافی کو کوئی نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھتا ہو اس کی دیانتداری کی گواہی عام لوگ دیتے پھر یں وہ جہاں بھی جائے وہاں پر اس کے چاہنے والے موجود ہوں کمی و بیشی ہر انسان میں موجود ہوتی ہے لیکن حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے کہ صحافت ایمانداری کے ساتھ کی جائے اور یہ صحافت کا سب سے بڑا معیار ہے صحافی کی اچھی ساکھ ہی اس کی پہچان ہے دوسروں کے ساتھ مسائل اجاگر کر نے والا اور دوسروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کاا زالہ کروانے والا طبقہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اور جب کبھی اس پر کوئی برا وقت آجائے تو قریبی ساتھی بھی نام لینے سے گھبراتے ہیں اس کی وجہ صرف نا اتفاقی ہے صحافتی طبقہ کو ان باتوں پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کیوں ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں ایک شہر میں ایک سے زیادہ پریس کلب بد نیتی کی کھلی نشاندہی کر رہے ہیں ہر کسی نے اپنا کام خود کرنا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا سمجھ سے بالا تر ہے اتفاق و اتحاد سے بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے اور اسی کے باعث عوامی مسائل مزید بہتر طریقے سے اجا گر کیے جا سکتے ہیں اتفاق میں بڑی برکت ہے اگر صحافی برادری گروپ بندی ختم کر کے اکٹھے چلے تو ان سے زیادہ طاقت کسی بھی ادارے کی نہیں ہو سکتی اور وہ معاشرے میں بہتری پیدا کرنے کے لیے مزید اچھا کر دار ادا کر سکتے ہیں03009109301-{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں