147

صحافت اور کار سرکار میں مداخلت

چوہدری محمد اشفاق
صحافی کو معاشرے کی آنکھ سمجھاجاتا ہے اس کی آنکھ وہ بہت کچھ دیکھ سکتی ہے جو عام آدمی کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی ہے معاشرے کا ہر فرد اپنے کام کی کسی نہ کسی طرح مزدوری حاصل کر لیتا ہے لیکن صحافت وہ واحد پیشہ ہے جس کی کوئی مزدوری نہیں ہے بلکہ اس پر بے شمار اخراجات آتے ہیں جو صحافی خود برداشت کرتا ہے صحافی دن بھر خوار ہوتے ہیں وہ رات بھر جاگتے ہیں وہ دھمکیاں بھی سنتے ہیں وہ گالیاں بھی سنتے ہیں وہ جان بھی لڑاتے ہیں وہ جان کی بازی بھی لگاتے ہیں وہ میلوں پیدل بھی چلتے ہیں وہ یہ سب کچھ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے کرتے ہیں تاکہ آپ لوگوں تک ہر خبر پہنچا سکیں یہی صحافی کا پیشہ ہے یہی اس کا مقصد ہے وہ نہ پیسے کے لیے نہ لالچ کے لیے کیونکہ صحافی وہ سب کچھ آپ کے لیے سہتا ہے صحافی ہی کی بدولت آپ گھر میں بستر پر سو کر پوری دنیا کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں صحافی نہ ہو تو آپ کے گھر اخبار نہ آئے آپ کے گھر کوئی نیوز چینل نہ چلے آپ کو کوئی یہ بتانے والا نہ ہو کہ آپ کے آس پاس کیا ہو رہا ہے اور دنیا بھر کے حالات کیا ہیں آپ کو با خبر صرف صحافی ہی رکھتا ہے صحافی کے بغیر آپ کی زندگی صرف آپ کے گھر تک محدود ہو لیکن صحافی کے ہوتے ہوئے آپ کی نظر پودی دنیا تک ہے اور وہ یہ سب کچھ بلکل بے لوث کر رہا ہے ان تمام کاموں کے پیچھے اس کا کوئی لالچ کا رفرما نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ یہ سب کچھ صرف اس سچے جذبے کے تحت کر رہا ہے جس کا مقصد خود کو مشکل میں ڈال کر دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے صحافی صرف عزت کا بھوکا ہوتا ہے وہ اپنے تمام مسائل کا حل صرف عزت میں سمجھتا ہے صحافی ہی معاشرے کا وہ واحد فرد ہوتا ہے جس کی نظر اپنے علاقے میں موجود ہر سرکاری ادارے ہر سیاستدان اور اس طرح کے دیگر شعبوں پر ہوتی ہے جب سرکاری اداروں میں عام آدمی کی کو ئی شنوائی نہ ہو تو موجودہ وقت میں صرف صحافی ہی وہ پلیٹ فارم ہے جو کسی بھی سرکاری افسر یا اہلکار سے پوچھنے کی ہمت رکھتا ہے کہ آپ نے فلاں شخص کے ساتھ کوئی زیادتی کیوں کی ہے عام آدمی کی کبھی بھی یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ ایسا کام کر سکے جب مریض اسپتال کے احاطے میں تڑپ رہا ہو اور ہسپتال کا عملہ اس کے پاس جانا بھی گوارہ نہ کرے تو صحافی ہونے کے ناطے وہ کبھی بھی خاموش نہیں ر ہ سکتا ہے وہ ضرور مداخلت کرتا ہے جب تھا نوں میں غریب اور مظلوم کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تی ہے تو صحافی ضرور مداخلت کرتا ہے اور یہی اس کی صحافتی زمہ داریوں کا تقاضا بھی ہے لیکن ہوتا یوں ہے کہ سرکاری ادارے اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے صحافی پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کروادیتے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی زیادتی ہے اور ایسے اقدامات کا مقصد صحافیوں کو پیشہ وارانہ زمہ داریوں سے روکنا ہے سرکاری ادارے خود بھی اپنا قبلہ درست نہ کریں کوئی صحافی بھی ان کے معاملات میں مداخلت نہ کرے تو یہ بے چارے غریب لوگ کدھر جائیں گئے پولیس کی طرف ہونے والی زیادتیوں کو کون منظر عام پر لاتا ہے ڈاکٹر کی طرف سے مریض کے ساتھ زیادتی کون اعلی حکام تک پہنچا رہا ہے اگر صحافی بھی یہ کام چھوڑدیں تو معاشرے میں ہر طرف جنگل کاقانون ہو جائے کوئی کسی کو پو چھنے والا نہ ہو یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے کہ عوام اور سرکاری اداروں کے درمیان پل کاکردار ادا کرنے والا صحافی جب اپنے فرائض دیا نداری سے انجام دینے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر کار سرکار میں مداخلت کا الزام لگا دیا جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی گھبراتا نہیں ہے بلکہ اپنے فرائض پہلے سے بھی زیادہ بہتر طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کرتاہے حکومت کو چاہیے کہ وہ کار سرکار میں مداخلت کے قانون پر نظر ثانی کرنے ان میں کچھ ترامیم کی جائیں کسی بھی شخص پر یہ مقدمہ درج ہونے سے پہلے واقع کی انکوائری ہو نی چاہیے اگر کسی صحافی یا دیگر شخص پر کوئی بات مکمل ثابت ہو جائے تو پھر اس طرح کا کیس درج ہو بصورت دیگر اس قانون کا مطلب صرف یہ سمجھا جائے گا کہ یہ قانون سرکاری اداروں کی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بنایاگیاہے اس قانون کو سرکاری ادارے بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے اور عام لوگوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے بلا خوف خطر استعمال کرتے ہیں کار سرکار مداخلت سے متعلق اختیارات سرکاری اداروں کے سربراہان کے پاس نہیں ہونے چاہیں بلکہ یہ اختیارات علاقہ مجسٹریٹ کے پاس ہونے چاہیے جو سرکاری اداروں کی شکایات کے متعلق انکوائر ی مکمل کر کے اس پر عملدرآمد کے لیے احکامات جاری کرے بے گناہی اور بے بنیاد مقدمات کے اندراج پر سرکاری افسران کے خلاف کاروائی بھی عمل میں لائی جائے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں