قارئین کرام! پی ٹی آئی جب پنجاب میں اقتدار میں آئی تو میرٹ میرٹ میرٹ کی پالیسی کا راگ الاپا گیا، بہت ساری جگہوں پہ میرٹ نظر بھی آیا یعنی کروڑوں روپے لے کر ڈی سی لگائے جاتے رہے
، کرپشن پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی، ایم پی ایز کی سفارش پہ محکمہ مال، پولیس، صحت سمیت ہر شعبے میں تقرریاں و تبادلے ہوتے رہے، بیورو کریسی کو کھلی چھوٹ دی گئی اور پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیورو کریسی نے انہی ایم پی ایز کو گھاس ڈالنا چھوڑ دی، مجھے یاد پڑتا ہے
کہ ہمارے مقامی ایم پی اے نے ایک جگہ کا دورہ کرنا تھا اور اس کے لیے انہوں نے متعلقہ سیکرٹری کو کال کر رکھی تھی، وقت مقررہ پہ جب ایم پی اے نے سیکرٹری موصوف کو کال کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے صاحب کا فون آ گیا ہے او۹ر میں واپس دفتر جا رہا ہوں، ایم پی اے صاحب سیخ پا ہوئے کہ میں نے تمہیں یہاں بلایا تھا
اور تم مجھے آگے سے اور رام کہانی سنا رہے ہو تو سیکرٹری موصوف نے پٹاخ ایم پی اے کو جواب دیا تھا کہ میں آپکا پابند نہیں ہوں اپنے افسر کا پابند ہوں اور اتنا کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا تھا، پھر بیورو کریسی کے بے لگام ہونے کی مزید مثالیں یہاں سالہا سال تعینات رہنے والی افسر شاہی کی صورت میں بھی دیکھنے کو ملیں جنہوں نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، جب پی ٹی آئی کا اقتدار ختم ہوا
تو نگران حکومت نے پنجے گاڑ لئے، نگران حکومت کے دوران بیورو کریسی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور چونکہ پنجاب میں اسمبلی ہی نہیں تھی اس لیے کوئی منتخب ایم پی اے نہ ہونے کے باعث انہوں نے “اپنا ماسی ویہڑا” بنا لیا اور پھر دونوں ہاتھوں سے عوام کو خوب تر لوٹا، فروری میں الیکشن کے بعد ن لیگ اقتدار میں آ گئی اور انکا پالا پانچ سالہ افسرشاہی بیورو کریسی سے پڑ گیا تو انہوں نے سر پہ ہاتھ رکھ لئے، کیونکہ بیورو کریسی کو پانچ سال کھلا میدان ملا رہا تو اب وہ کہاں انکے ہاتھ آنے والے تھے
، سونے پہ سہاگہ یہ کہ خاتون وزیراعلیٰ بن گئیں جنہوں نے کہہ دیا کہ میرٹ پہ کام ہو گا اور اگر میرا کوئی ایم پی اے میرٹ کیخلاف کام کہے تو کسی صورت نہ کریں، بیورو کریسی کو مزید شہ مل گئی اور اب وہ ن لیگ کی حکومت کے ہوتے ہوئے ن لیگی ایم پی ایز کو کچھ نہیں سمجھ رہی، 2013
سے 2018 تک دھڑلے سے حکومت کرنے والی ن لیگ کے ایم پی ایز اب منت سماجت کر کے کام کراتے ہیں اور کئی کام انکے روک دیئے جاتے ہیں جس پہ وہ آواز بھی بلند نہیں کر پاتے مریم نواز بچوں کو دودھ کے ڈبے دینے ڈیرہ غازی خان پہنچ جاتی ہیں مگر ہزاروں بچے سکول سے باہر ہیں انکو تعلیم دینے کیلیے انکے پاس فنڈز نہیں، عمارتیں نہیں، ٹیچرز نہیں اور سکولوں کو پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے
یہاں تک راقم نے پنجاب کی سابقہ و موجودہ صورتحال کی منظر کشی کرنے کی کوشش کی ہے اب آتے ہیں اپنی تحصیل گوجرخان کی جانب جہاں مسائل بے پناہ مگر مستقل حل کی جانب کوئی نہیں جاتا،
ایک ہفتے کے دوران تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال گوجرخان میں دو واقعات پیش آئے ہیں، پہلا واقعہ 16 ستمبر کی شب پیش آیا جہاں سیکورٹی گارڈز اور مریض کے لواحقین کے مابین مار پیٹ ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو ٹھیک ٹھاک لتاڑا، دوسرا واقعہ 18 ستمبر کو پیش آیا جہاں ڈاکٹرز و عملے کی غفلت کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج مریضہ کا بچہ پیٹ میں فوت ہو گیا اور ڈاکٹرز نے جان چھڑانے کیلیے
انہیں دوسرے ہسپتال جانے کا کہہ دیا، مار پیٹ کے کیس کی ویڈیو کافی وائرل ہوئی مگر اس کا کسی نے خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا، شاید لیا ہو لیکن میرے علم میں تاحال نہیں، جبکہ دوسرا کیس ہائی لائٹ ہوا تو اس پہ فوری نوٹس لے لیا گیا، سی او ہیلتھ نے انکوائری کمیٹی بنا دی، لواحقین کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر
اپنا مدعا بھی بیان کر آئے اور اب آگے کیا ہو گا اسکے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔۔ حالانکہ ایک وائرل ویڈیو میں خاتون نرس یا ڈاکٹر یہ تسلیم کر رہی ہے کہ یہاں ڈاکٹر 8 بجے آئے گی اور بچے کی حالت ٹھیک نہیں ہے جبکہ دوسری جانب میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے یہ تسلیم کیا کہ تین ڈاکٹرز آن کال تھے
جنکو فوری کال کی جاتی تو وہ یہاں آنے کے پابند تھے لیکن شاید اس بہت بڑے ثبوت کے باوجود بھی نااہلی و غفلت کے مرتکب ڈاکٹرز کو گنجائش دے دی جائے۔۔ یہاں کچھ بھی ممکن ہیکچھ ایسی ہی صورتحال پنجاب کے دیگر محکموں کی ہے جہاں پہ عام سائل کی کوئی شنوائی نہیں، گوجرخان شہر میں سیوریج کا مسئلہ ہی ہر وقت درد سر بنا رہتا ہے، شہریوں کے گھروں کے سامنے، لنک سڑکوں پہ، گلیوں میں گندا پانی کھڑا رہتا ہے
اور سرکار ڈینگی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے، شہر میں پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے مگر سب انجینئر کی بے حسی کے باعث وہ مسئلہ حل نہ ہو سکا، اس طرح کے دیگر بیشمار مسائل جن کا حل ہونا
بہت ضروری ہے مگر چونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں تو اس لیے بیورو کریسی اپنی من مرضی کے مطابق چل رہی ہے اور یہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا، میرے ذاتی خیال میں مریم نواز شریف کا پنجاب اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک منتخب نمائندوں کو اختیارات نہیں دیئے جاتے
کیونکہ منتخب نمائندہ عوام کی آواز ہوتا ہے اور مسائل اور انکا حل اسکے پاس بطریق احسن ہوتا ہے جبکہ بیورو کریسی حکومتوں کو ناکام کرنے میں پیش پیش رہتی ہے۔
۔ ایک اور مزے کی بات یہ کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تمام محکموں کے افسران کو پابند کیا ہے کہ وہ صبح 10 بجے سے ساڑھے 11 بجے تک دفتر میں سائلین کی شکایات سنیں گے،
اب محترمہ وزیراعلیٰ کو کون سمجھائے کہ مسائل پیدا کرنے والے خاک شکایات سنیں گے، سارے مسائل تو اسی افسر شاہی و بیوروکریسی نے پیدا کر رکھے ہیں جو کچھ درست ہونے نہیں دیتے کیونکہ انکی دیہاڑیاں مسائل سے ہی جڑی ہیں۔۔ والسلام