یوں تو اسلامی تاریخ میں کوئی دن ایسا نہیں جب مسلمانوں نے قربانی نادی ہولیکن کچھ تاریخ کچھ مواقع کچھ دن یادگار کے طور پربھی یاد کئے جاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی مواقع ہوتے ہیں جوناقابل فراموش ہوتے ہیں انہی میں سے ایک دن غزوہ احد کادن اور میدان بھی ہے جو اسلامی اور تاریخی اعتبار سے ناقابل فراموش ہے جو آج چودہ سو سال کہ بعد بھی پڑھنے سے ایسے معلوم ہوتاہے کہ ابھی ابھی کچھ عرصہ قبل یہ واقعہ پیش آیا اور اس طرح کہ واقعات پڑھنے اور دہرانے سے مسلمان کا ایمان بھی تازہ ہوتاہے اورصحابہ کرام کی قربانی سے ایمانی جذبہ بھی بڑھتاہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اکرم پر ایمان لانے کے بعد اپنا تن من دھن مال و دولت کنبہ قبیلہ حتی کہ دنیا میں جوبھی انکے پاس تھاسب قربان کردیا اور سب کچھ قربان کرنے کہ بعد بھی ہمہ وقت ہمہ تن حضور نبی کریمﷺپر قربان ھونے اور دل وجان سے آپﷺکی حفاظت کیلئے تیاررہتے یہی وجہ تھی کہ جب نبی اکرمﷺصحابہ کرام کو مال کی ترغیب دیتے توصحابہ کرام گھرکاساراسامان تاجدار ختم نبوتﷺکے قدموں میں نچھاور کردیتے جب جہادکی صدا بلندھوتی توصحابہ کرام بلاخوف وخطرشرکت کرتے جن کے پاس مال ھوتا وہ مال سمیت جنکے پاس گھوڑے ھوتے وہ گھوڑوں سمیت،جنکے پاس کچھ بھی ناھوتاوہ ننگے پاؤں ہی اسلام کی سربلندی اور آقاعلیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ھوئے جان کانزرانہ پیش کرنے کہ لئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوجاتے اور پھر کفار کو سبق سکھانے کے لئے اس جذبہ سے میدان جہاد میں صف باندھتے کہ دشمن کی اکثریت ھونے کے باوجود،دشمن لوہے کے لباس میں غرق ھوتا پھر بھی،دشمن کی فوج مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ھونے کے باوجود، دشمنان دین اسلام کو صحابہ کرام گاجر مولی کی طرح کاٹتے حالانکہ بہت سارے صحابہ کرام کے پاس لباس،جوتے،اور سامان جنگ بھی مکمل نا ھوتا لیکن انکی ایمانی قوت کے مقابلہ میں دشمن ریت کی دیوار ثابت ھوتے ا ور نیست ونابود ہوتے اسی وجہ سے دشمن کو2 ھجری میں غزوہ بدر میں مسلمانوں نے جس شان وشوکت،جرات وبہادری، دیدہ دلیری سے شکست دی،ناکوں چنے چبوانے پرمجبورکیا وہ منظر تاقیامت یاد رکھاجائے گاکفار مکہ یہ شکست برداشت ناکرسکے وہ اپنی ناکامی، ذلالت، پریشان حالی، بغض وعناد،حسد وکینہ،کی آگ میں بری طرح جل رہیت ھے انکی چاہت تھی کہ اس شکست کو اس ذلالت اور ناقابل یقین شکست کابدلہ جلدازجلد لیاجائے وہ اس کیلئے طرح طرح کہ حیلے بہانے تلاش کرنے لگے وہ اس جستجومیں لگے رہتے کہ کب موقع ملے اورمسلمانوں پرچڑہائی کردیں چنانچہ دو ہجری،شکست کھانے کے بعد 3ہجری ماہ شوال المکرم میں انکے حسدکی آگ لاوہ بن کر ابل پڑی اس انتقام کوسرانجام دینے کیلئے کفارمکہ نے جو جنگ چھیڑی مسلمانوں نے مقابلہ کیااسے غزوہ احدکہاجاتاہے چنانچہ مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان احدکے پہاڑدامن میں جنگ واقع ھوئی مشرکین کے لشکرکی قیادت ابوسفیان(جواس وقت تک مسلمان نہیں ھوئے تھے)3000سے زائدافرادکیساتھ کی جبکہ مسلمانوں کی قیادت حضور نبی کریمﷺنے کی اس جنگ میں دونوں طرف کے لوگوں کوشدید مشکلات کابھی سامنا کرنا پڑا اورنقصان بھی اٹھانا پڑاغزوہ بدرمیں مسلمانوں کے ھاتھوں شکست کھانے کے بعد کفار،مشرکین اور یہود کو یہ اندازہ ھوگیا تھاکہ مسلمان اب کمزور نہیں رہے،مسلمان معمولی قوت نہیں بلکہ ایک مضبوط قوت بن کرابھررہے ہیں یہ بات انکو ہضم نہیں ھو
رہی تھی وہ نہایت غم وغصہ میں اپنی بے عزتی کابدلہ لینے کاخواب دیکھنے لگے وہ تو تجارتی قافلے اورراستوں پربھی اپناقبضہ واپس لیناچاہتے تھے جنگ کے شعلے بھڑکتے رہے جس میں اشعار پڑھ پڑھ کربھی لوگوں کو متوجہ کرنے کیساتھ ساتھ ترغیب دی جاتی مشرکین کی طرف سے بھرپور تیاری کی گئی تین ھزارسے زائد لشکر پر مشتمل افراد مسلمانوں کے مقابلہ میں آگئے جن میں سات سو زرہ پوش دوسو گھوڑے تین سواونٹ شامل تھے حضوراکرمﷺکے چچاحضرت عباس رض کومشرکین کے عزائم کاعلم ھواتوحضورﷺنے انصارومہاجرین سے مشورہ کیاکہ یہاں مکہ میں ہی مقابلہ کیاجائے یاباہرنکل کرتوباہرنکل کر مقابلہ پرفیصلہ ہوا 6 شوال بروز جمعہ حضور اکرمﷺنے اصحاب کواستقامت کی تلقین کیا اورایک ہزار کی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوگئے اشواط کے مقام پرمنافق عبداللہ ابن ابی اپنے تین سو سواروں کے ساتھ مسلمانوں سے علیحدہ ہوگیا 7شوال 3ہجری احدکے مقام پر دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوگیا احدکاپہاڑ مسلمانوں کی پشت پرتھا وہاں ایک درہ پر حضور اکرمﷺنے عبداللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیراندازوں کو مقرر کیا اور نصیحت کی کہ کسی صورت اس جگہ کو خالی ناچھوڑنا جنگ کا آغاز مشرکین کی طرف سے ہوا اس موقع پر مشرکین کے نوافراد قتل ہوئے دوسرے مرحلہ میں مشرکین نے پھرحملہ کیا انکی عورتیں انکواشعار پڑھ کراشتعال دلاتی رہی مسلمانوں نے جم کر مشرکین کوقتل کیا جس سے مشرکین راہ فرار اختیار کرنے لگے جو پہاڑ پر دستہ تعینات تھا انہوں نے مسلمانوں کی فتح دیکھتے ہی وہ جگہ خالی کر دی اس غلط فہمی کا مسلمانوں کونقصان اٹھاناپڑا اس پہاڑ کی چوٹی پر دس صحابہ کرام رہ گئے باقی نیچے لشکرسے جاملے مشرکین نے اس موقع کو غنیمت جانا اور وہاں قبضہ کرلیا اس اثناء میں یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ محمدﷺشہید کردئیے گئے صحابہ اکرام نے یہ سن کر کچھ کہنے لگے اب زندگی کاکیافائدہ جب نبی ﷺہمارے درمیان نارہے کچھ پہاڑ پر چڑھ گئے کچھ نے نبیﷺکی حفاظت کی اس موقع پر حضور اکرمﷺنے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوذوالفقار نامی تلوار عنایت فرمائی،حضورﷺکے دانت شہید ہوئے حضرت حمزہ ؓ کوبے دردی سے شہیدکردیاگیا حضرت حمزہ کے ناک،کان کوکاٹاگیاکلیجہ چبایاگیا،اس احد کہ میدان کے شہداء کی فضیلت اپنی جگہ لیکن اس پہاڑ کی بھی فضیلت حدیث سے ثابت ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺنے احدپہاڑکی جانب دیکھ کرفرمایا احدپہاڑ ہم سے محبت کرتاہے ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
227