شعبہ توانائی کا گردشی قرضہ 189

شعبہ توانائی کا گردشی قرضہ

پاکستان کی کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نومبر 2020تک پاکستان میں توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کا حجم 2306ارب روپے تک پہنچ چکا ہے کمیٹی برائے توانائی کو بتایا گیا کہ گردشی قرضے بڑھنے کی بڑی وجوہات میں بجلی کی چوری‘واجبات کی بروقت ادائیگی کا نہ ہونا اور توانائی کے شعبے میں پبلک سیکٹر کی ناقص کارکردگی شامل ہیں اجلاس کو اس بابت بھی آگاہ کیا گیا کہ بجلی دینے والے کئی ادارے سمارٹ میٹر کا انتخاب نہیں کرتے جو دن بدن ایک مسئلے کی شکل اختیار کر رہا ہے اگر پاکستان کے شعبے توانائی کو دیکھا جائے تو یہ شعبہ گزشتہ تیرہ برسوں سے گردشی قرضوں تلے دبا ہوا ہے 2008میں ان قرضوں کا حجم ساڑھے تیرہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچا تھا تاہم مسلم لیگ نواز کی حکومت کے دوران اس مسئلے سے نمٹا گیا اور موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کے برسراقتدار آنے سے چند ماہ پہلے یعنی جون 2018میں توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 1148ارب روپے تک پہنچ گیاتھا موجودہ حکومت کے دو برسوں کے دوران یعنی نومبر 2018سے نومبر2020کے دوران یہ قرضہ ایک مرتبہ پھر بڑھ کر 2306 ارب روپے تک جا پہنچا ہے مختلف حکومتوں کی جانب سے توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں پر بات کی جاتی رہی ہے اور حکومتیں اس بوجھ کو کم کرنے کی کوششوں کی بات بھی کرتی رہی ہیں لیکن اس مسئلے کے مستقل حل کیلئے اب تک کوئی واضح پالیسی یا طریقہ کار وضع ہی نہیں کیا گیا ہے کراچی میں بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک کے علاوہ اس وقت ملک میں بجلی کی فراہمی کا سارا نظام حکومت کے پاس ہے حکومت یا سرکاری ادارے جب بجلی سپلائی کرنے یا تیل اور گیس کرنے والے اداروں کو حاصل ہونے والی بجلی کے عوض معاوضہ ادا نہیں کر سکتے تو یہ قرض جمع ہوتا رہتا ہے اور اسے گردشی قرضہ کہا جاتا ہے حکومت کی جانب سے رقم بروقت فراہم نہ کرنے کے باعث بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں اور اس سے منسلک اداروں خاص کر آئی پی پیز کو چلانا مشکل ہوتا جاتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ان کمپنیوں کا جو ماہانہ بل ہو وہ بروقت ادا کر دیاجائے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کو بتایا گیا کہ گردشی قرضے میں 156ارب روپے کا اضافہ آئی پی پیز کو بروقت رقم ادا نہ کرنے‘بجٹ میں شامل ہونے والے اخراجات اور کے الیکٹرک کی طرف سے ادائیگیاں نہ ہونے کے وجہ سے سامنے آیا ہے اس اضافہ کی وجوہات میں ایک ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی کی قدر میں کمی ہونا اور دوسرا کووڈ19کی موجودہ صورتحال ہے پھر ان دو برسوں میں شرح سود بلند ہونے کی وجہ سے بھی گردشی قرضے میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے درآمدات کا موازانہ اگر روپے سے کیا جائے تو اس میں واضح اضافہ ہوا ہے اس میں بیرونی ممالک سے تیل کی درآمدات کو بھی شامل کرلیں تو اس کی وجہ سے بھی اثر پڑا ہے اور پہلے کی نسبت یہ خسارہ زیادہ ہو گیا ہے 2306ارب روپے کا قرض پاکستان کو اندورنی اور بیرونی کمپنیوں کو ادا کرنا ہے واجبات اس قرضے کو کہتے ہیں جو پبلک سیکٹر یا کاروباری ادارے جیسا کہ پاکستان سٹیل مل کے ذمے واجب الاداہوتے ہیں جبکہ بجلی کے جو کارخانے پرائیویٹ سکیٹرمیں شامل ہوتے ہیں ان کو آئی پی پیز کہتے ہیں جب سرکار ان کے واجبات ادا نہیں کر پاتی تو ان اداروں کیلئے بجلی کے کارخانے چلانا مشکل ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں بجلی کی فراہمی میں کمی واقع ہوتی ہے گردشی قرضے کی مدمیں ہر ماہ اضافہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اس میں اضافے کی وجہ کچھ پالیسی سے منسلک ہیں اور کہیں قرضوں اور واجبات کی ادائیگی کیلئے بنائی گئی ساخت اس کی ذمہ دار ہے اس اضافے کو کم کیا جا سکتا ہے جس کیلئے چند اصلاحات کی ضرورت ہے جو
ریکوری 2020میں اٹھاسی فی صد تھی اسے بڑھا کر سو فی صد تک لے جانا ضروری ہے ایسا کرنے سے گردشی قرض میں ایک سو ساٹھ ارب روپے کمی واقع ہو سکتی ہے ٹیکنالوجی کا استعمال‘ٹیرف کا بروقت اجرا‘فیول کا ماہانہ اجرااور سالانہ ٹیرف کا بروقت اجرا بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے گردشی قرضے کا ماہانہ اضافہ کم کرنے کا سب سے اہم طریقہ سمارٹ میٹرپر عملدرآمد کرانا بے حد ضروری ہے 2014سے2017تک کے عرصے میں گردشی قرضے کو بڑھنے نہیں دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں بجلی کی فراہمی مناسب طریقے سے چلتی رہی اور آئی پی پیزکے بھی مسائل پیدا نہیں ہوئے مگر گزشتہ تین برسوں میں ان قرضوں میں اضافہ ہوا ہے تین برسوں میں دو ہزارارب روپے کا اضافہ ناقابل فہم ہے اور اس شعبے میں حکومتی کارکردگی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے صارفین کی جانب سے بجلی بل کی عدم ادائیگی چند وجوہات کی بناء پر نہیں ہو پاتی مثلاسابقہ فاٹا‘بلوچستان‘صوبہ سندھ میں کچے کے علاقے اور خیبر پختونخواہ میں بھی ایسے علاقے ہیں جہاں صارفین بجلی کی رقم ادا نہیں کرتے مگر یہاں سیاسی معاملات کی بناء پر حکومت کی جانب سے سختی نہیں کی جاتی گذشتہ مالی سال 2020کے دوران گردشی قرضوں میں تیس فی صد اضافہ ہوا اور یہ بیس کھرب روپے کی سطح عبورکر چکے ہیں گردشی قرض جون 2019کے دس کھرب ساٹھ ارب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر جون 2020تک اکیس کھرب پچاس ارب روپے تک پہنچ چکا تھا کووڈ19سے متعلق مسائل نے گردشی قرض بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا کیونکہ عالمی وبا کی وجہ سے بجلی کے بلز کی عدم ادائیگیوں اور بجلی چوری میں اضافہ ہوا بجلی چوری اور بجلی کے بلز کی عدم ادائیگی کی بڑی وجوہات میں سے ایک بجلی کی بلند قیمتیں بھی ہیں موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں گردشی قرضے کے سارے ریکارڈٹوٹ گئے ہیں پاور سیکٹر کا قرضہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح دو ہزار 476ارب روپے پر پہنچ گیا جولائی تا دسمبر 2021 کے دوران گردشی قرضہ میں 196ارب روپے اضافہ ہوا موجودہ حکومت کے دور میں گردشی قرضہ ایک ہزار 328ارب روپے بڑھا جبکہ جولائی تا دسمبر قرضے میں ماہانہ اوسط بتیس ارب پچاس کروڑ روپے اضافہ ہوا اگست 2018تک گردشی قرضے کا حجم ایک سو اڑتالیس ارب روپے تھا دسمبر 2021تک پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ دو ہزار476ارب روپے ہو گیا تھا جبکہ جون 2021تک قرضے کا حجم دوہزاردوسواسی ارب روپے تھاضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم گردشی قرضوں کے بارے میں سوچ بچارکرکے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرے کہ گردشی قرضہ نہ صرف کم کرے بلکہ اس کو بالکل ختم کرنے کی جدوجہد کرے کیونکہ گردشی قرضوں کے دن بدن بڑھنے کا رحجان ملک کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں