87

شرقی گوجرخان میں نادرا دفتر کا قیام

کہتے ہیں فیصلے کا لمحہ بڑا مبارک لمحہ ہوتا ہے اور زندگی میں بار بار یہ لمحات نہیں آتے صحیح وقت پر درست فیصلے ہی کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں کرہ ارض پر جہاں کہیں کچھ ہوتا ہے ہم کومعلوم ہوجاتا ہے بلکہ دیکھائی بھی دیتا ہے گویا اب ہر واقعہ ہمارے قریب کا واقعہ اور ہر منظر سامنے کا سامنے کا منظر ہوگیا ہے دنیا بدل رہی ہے بظاہر اخلاقی‘سماجی‘سیاسی اور مذہبی طور پر ہمارے مسائل کا تجزیہ اور ان کے حل کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے ہمارے رہبر ورہنما فکر کے میدانوں میں ہمارے لیے تگ ودو کرتے دیکھائی پڑتے ہیں لیکن کیا یہ تگ ودو ایماندارانہ‘مخلصانہ اور میرٹ پر ہوتی ہے۔شاید اس کا جواب نفی میں ہوگا لیکن نہیں ہم اسے نہیں سمجھیں گے ہمیں سیاست کے داؤ بیچ سمجھنے کے لیے جس آگاہی کی ضرورت ہے وہ آگاہی ہمیں حاصل نہیں ہے جب وقت کی گردش میں مبتلا انسان کی نظر اپنے ارد گرد کی چیزوں کا احاطہ نہیں کرپاتی تو نظروں سے اوجھل رہ جانے والے پہلووں پر اس کی سوچ کیا اگاہی پاسکے گی۔کیا اوجھل اور کیا نظر کے سامنے حق کے لیے آوازاُٹھانا اب مشکل ترین کام سمجھا جاتا ہے۔ راجہ پرویز اشرف کی جانب سے شرقی گوجرخان میں نادرا آفس کے قیام کو لے کر بھی کچھ ایسا دیکھائی پڑتا ہے کہ بیول جو نادرا آفس کے لیے سب سے موزوں اور مناسب ترین پوائنٹ ہوسکتا ہے جہاں نادرا آفس کا قیام ٹکال‘سموٹ‘سرصوبہ شاہ‘ سوئیں چیمیاں‘ جبر‘ تھاتھی‘ میراشمس اور دیگر چھوٹے بڑے دیہات کے لیے آسانیاں پیدا کرسکتا ہے کیونکہ بیول ان علاقوں کے درمیان قائم ہے جبکہ حبیب چوک گوجرخان اور بیول کے درمیان واقع ہے۔حبیب چوک میں آفس کا قیام راجہ پرویز اشرف کے کسی خاص حمایتی کا رانجھا تو راضی کرسکتا ہے لیکن اس کا بیول اور دیگر علاقوں کے رہائشی افراد کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں کے لوگ پہلے کلر سیداں میں قائم نادرا سنٹر سے رجوع کرتے ہیں اگر حبیب چوک جاتے ہیں تو شاید کلر سیداں سے زیادہ فاصلہ طے کرنا ہوگا۔منصوبہ بندی کرتے ہوئے ایک ایک نکتے کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے منصوبے کے تمام پہلوں کا جائزہ لینے کے بعد اسے قابل عمل قرار دیا جاتا ہے لیکن اس منصوبے میں شاید عوام کو ریلیف دینا مقصد نہیں بلکہ سیاسی طور پر اقراباء پروری مقصود ہے کیونکہ اگر سوچ عوامی ریلیف کی ہوتی تو بیول اس کام کے لیے مرکزی پوائٹ قرار پاتا۔حیرانی تو اس بات پر ہے کہ اس نااصافی پر بیول کے عوام سیاسی وسماجی حلقے منہ سیے بیٹھے ہیں راجہ پرویز اشرف کے جیالے بھی انہیں اس پر قائل کرنے سے قاصر ہیں۔انصافی اور لیگیے بھی چپ سادے ہوئے ہیں کب تک صرف نعروں اور تالیوں پر زندگی گذرے گی۔بیول کو ہر دور میں نظر انداز کیا گیا ہے۔دور پی پی کا ہو یا ن لیگ گا یا اب تحریک انصاف کا بیول کو سوائے تسلیوں کے کیا دیا گیا۔سب سے زیادہ وقت ن لیگ کو ملا لیکن بیول کی محرومی دور نہ ہوسکی اب اگر نادرا آفس کا قیام ہونے جارہا ہے تو یہ بیول کے عوام کا حق ہے کہ انہیں یہ سہولت فراہم کی جائے۔اپنی اپنی جماعت سے بالاتر ہوکراس پر آواز اُٹھائیں۔کہ چپ رہنے سے آپ اپنے حقوق سے ویسے ہی محروم رہیں گے جیسے گذشتہ پچھتر برسوں سے محروم ہیں،

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں