306

شب برات کی فضیلت و اہمیت

اسلام ایک کامل دین ہے دین اسلام نے انسانوں خاص کرمسلمانوں کی قدم قدم پر راہنمائی کی حتی کہ پاکی ناپاکی،سونے جاگنے،اٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے،سفر وحضر،کھانے پینے،بول چال،کے آداب تک بیان کردئیے تویہ کیسے ممکن تھاکہ اسلام تمام تعلیمات کو عام کرنے کے بعد دن رات اور وقت کے تعین کوبھول جاتاپھرخاص کر ان راتوں کو جنکی فضیلت قرآن وحدیث میں واضح ہے ان راتوں اور سعادت مند گھڑی کی فضیلت سے انکار نہیں کیاجاسکتاالبتہ ان راتوں کی جتنی فضیلت ثابت ہے ان کو اتناہی بیان کرنا چاہیے بڑھاچڑھا کراپنی طرف سے دین اسلام اور اسلامی تعلیمات میں اضافہ ناتوکیاجاسکتاہے اور ناہی ان باتوں کی دین اسلام میں اجازت ہے اورناہی ان باتوں کی کوئی گنجائش باقی ہے باقی رہی یہ بات کہ شب برات ہے کیا،یہ کس رات کانام ہے اور اس رات میں ہمیں کیاکرناچاہیے اور کن باتوں کا اہتمام کرناچاہیے کن باتوں پر عمل کرناچاہیے اور کن امورسے اجتناب لازم ہے ان تمام حقائق کوپرکھناضروری ہے شعبان کی پندرہویں رات شب براء ت کہلاتی ہے،اس رات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو گناہوں سے نجات دیکربری کرکہ پاک و صاف کرتے ہیں،یعنی مغفرت چاہنے والوں کی بے انتہامغفرت فرمائی جاتی ہے اس رات میں سال بھرکہ فیصلے کی تجدیدکی جاتی ہے چونکہ شب برات کی فضیلت میں آئی ہوئی بعض احادیث ضعیف ہیں اس لیے کچھ لوگ اس ضعف کے باوجود اہمیت وفضیلت کا مقام دیتے ہیں جو مناسب نہیں شب برات کے بارے میں یہ تاثر بھی بالکل غلط ہے کہ اسکی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺنے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی،ان میں سے بعض احادیث سندکے اعتبار سے بیشک کچھ کمزورہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونیکی وجہ سے بعض علماء نے یہ بھی کہہ دیاہے کہ اس رات کی فضیلت اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکاضعف جاتارہتا ہے،اور جیساکہ عرض کیاگیاہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنابہت غلط ہے امت مسلمہ کے خیرالقرون یعنی صحابہ کرام کا دور،تابعین کا دور،تبع تابعین کادور،اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کااہتمام کیاجاتارہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں،صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِاجر و ثواب ہے البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے توہی مقبول ہے جیساکہ بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک من گھڑت طریقہ رائج کر کہ یہ مشہورکردیاہے کہ شب ِبرات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جائے مثلاََ پہلی و دوسری رکعت میں فلاں فلاں سورت اور اتنی اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ،اسکا کوئی ثبوت نہیں اورناہی اسکی کوئی اصل ہے یہ بالکل بے بنیاد وبے اصل بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں پڑھی جائے، نفل نماز پڑھیں،قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکر اذکارکریں، تسبیح پڑھیں،دعائیں مانگیں
، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ عبادت وغیرہ کرنا ثواب ہے لیکن کوئی مخصوص طریقہ رائج کرنا درست نہیں اورناہی کوئی خاص طریقہ ثابت ہے۔ شبِ برات میں قبرستان جانے کاایک عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں لیکن حضرت اقدس مفسرقرآن حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب عثمانی قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے فرماتے تھے کہ جوچیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھناچاہئے،لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی یہ بے اصل بات ہے اور اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے اس رات ایک مسئلہ اور بھی پیش آتاہے کہ شب برات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزہ رکھناچاہیے کہ نہیں تو اسکو بھی سمجھ لینا چاہئے،خاص کر پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28اور29 شعبان کو حضورﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کیلئے انسان نشاط کے ساتھ تیا ر رہے یہ سب باتیں وہ ہیں جنکا تعلق انسان کہ ساتھ انفرادی طور پرہے جیسا کہ ذکر اذکار کرنا تلاوت کرنا روزہ رکھنا وغیرہ وغیرہ لیکن اس رات یا اس جیسی دیگر فضیلت والی راتوں میں لاؤڈ اسپیکر آن کر کہ ساری رات پورے علاقہ میں اپنی گونجتی آواز بلند کرنا اور یہ سمجھنا کہ میں عبادت کر رہا رہاہوں کسی طرح بھی ٹھیک نہیں کیونکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عشاء کی نماز پڑھ کر آرام کرنے کی غرض سے سو جاتے ہیں بعض گھروں میں چھوٹے بچے سوئے ہوتے ہیں بعض جگہ پر خواتین و بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور ممکن ہے کوئی بیمار بھی ہو ساری رات اسیپکر پر رات منانا درست نہیں ہے انفرادی طور پر عبادت کریں اور دوسرے لوگوں کہ سکون و آرام کا خیال بھی رکھیں ورنہ حقوقِ اللہ ادا کرتے کرتے حقوقِ العباد کی حق تلفی لازم آئے گی اس رات جو آتش بازی کی جاتی ہے وہ فضول خرچی و مجوسیوں سے مشابہت کے زمرے میں آتی ہے لہذا جن کاموں کہ کرنے کاحکم ہے انکو کیجئے جن سے بچنا کی ضروری ہے ان سے اجتناب کیجئے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں